ماہ رنگ کا اَلم

1192

ماہ رنگ کا اَلم

دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ

بہزاد دیدگ بلوچ

 

آج سے چند سال پہلے ایک لڑکی کی ویڈیو انٹرویو سوشل میڈیا میں گردش کرتی نظر آرہی تھی، جو ایک صحافی مدیحہ طاھر کو اپنے والد کی جبری گمشدگی اور اس پر ہونے والے تشدد کی کہانی سنارہی تھی۔ یہ کہانی سناتے ہوئے جس طرح وہ آنسووں کی لڑی اور ہونٹوں پر مسکان کے بیچ توازن قائم کرتے ہوئے بات کررہی تھی، اس رنج بھرے مسکان نے پورے سماج کا ایسا مزاق اڑایا کہ سب نے سرمشاری سے کچھ وقت تک اپنے فیس بک پروفائلوں پر اس لڑکی کی تصویر رکھ کر اس شرم کا ازالہ کیا۔ انٹرویو میں بات کرتے جب آنسو جیت جاتے اور الفاظ خشک ہوکر حلق میں اٹک جاتے، تو پھر اگلے ہی لمحے وہ آنسو پونچھے بغیر مسکراتے ہوئے گلوگیر لہجے میں اعتماد کے ساتھ مسکراہٹ کو فتحیاب کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھتی۔ اس گفتگو کو دیکھنے اور سننے والے کئیوں کا دل ایسے پسیجہ کے وہ لڑکی ماہ رنگ بلوچستان کے بیٹیوں کی اَلم کی علامت بن گئی۔

گوکہ اس انٹرویو نے ہمدردی کے کشکول کو الفاظ سر بھر دیا، لیکن پھر بھی وہ ماہ رنگ کی زندگی میں رنگ نہیں بھرسکی۔ اس انٹرویو کے نشر ہونے کے چند ماہ بعد ہی اسکے والد اور معروف بلوچ قوم پرست رہنما غفار لانگو کی لاش 2011 کے جولائی کے مہینے کی پہلی تاریخ کو بلوچستان کے خوبصورت ساحلی قصبے گڈانی سے تشدد زدہ حالت میں ملی۔

غفار لانگو ایک متحرک بلوچ قوم پرست رہنما تھے، اسے 11 دسمبر 2009 کو اس وقت کراچی سے خفیہ ادارے والے اٹھا کر لے گئے تھے، جب وہ اپنی اور اپنی بیوی کے علاج کے غرض سے کراچی آیا ہوا تھا اور ہسپتال میں ہی تھا۔ اسے علاج کروانے جانا ہی پڑا تھا کیونکہ وہ سات ماہ پہلے ہی 8 مئی 2009 کو تین سال تک جیل و زندان میں بند رہنے اور تشدد سہنے کے بعد رہا ہوا تھا۔

یہ پہلی بار نہیں تھا کہ غفار لانگو کو اس طرح اغواء کرکے اٹھا کر غائب کیا گیا ہو، اس سے پہلے وہ پہلی بار سنہ 2000 میں اور دوسری بار سنہ 2006 میں اسی طرح اغواء ہوکر گئے تھے، لیکن پچھلے دونوں بار دو تین سال تشدد سہہ کر نیم مردہ حالت میں لوٹے تھے، لیکن اب تیسری بار بلوچستان کے حالات بدل گئے تھے، کہا جارہا تھا کہ بلوچستان کو پورے حقوق ملیں گے، اس لیئے اس بار نیم مردہ نہیں پورے مردہ حالت میں واپس کیئے گئے۔

ماہ رنگ کہتی ہے کہ ہم تو بڑے ہی اسی طرح ہوئے ہیں کہ اپنے باپ کو غائب ہوتے دیکھتے اور اسکے لیئے پریس کلبوں کے سامنے احتجاجیں کرتے۔  وہ لکھتی ہے “آج بھی یاد ہے جب ابو کے اغواء ہونے کے بعد پہلی بار پریس کلب گئے تھے۔ اْس وقت کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا، کچھ لوگ گھور رہے تھے، کچھ ترس کی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور کچھ نفرت سے تکتے جا رہے تھے، ہمیں اْس وقت بس اتنا پتہ تھا کہ’’ ابو گھر میں نہیں ہیں‘‘اور ہم سے اتنا ہی کہا گیا تھا کہ اتنے زور سے نعرے لگانا کہ وہ لوگ جو تمہارے ابو کو لے گئے ہیں، وہ مجبور ہوکر اْنہیں چھوڑ دیں۔”

ابو کی لاڈلی بیٹی ہونے کے باوجود، ماہ رنگ کو ابو کے ساتھ وہ سارا وقت بِتانے کا کبھی موقع نا مِلا، جس کا ارمان وہ دل پر لیئے انتظار کررہی تھی لیکن ایک انتظار گڈانی میں تمام ضرور ہوا، گڈانی کے ساحل پر لاش اٹھانے کے بعد وہ سارے پلے کارڈ، احتجاجی بینر، اپنی چیخ اور بازیابی کے سارے نعرے سمندر کے لہروں کے سپرد کرکے ماہ رنگ پریس کلبوں کو ہمیشہ کیلئے الوداع کرتے ہوئے پڑھائی میں جت گئی اور بولان میڈیکل کالج میں محنت سے داخلہ حاصل کرلیا۔ اب وہ بچی ماہ رنگ، ڈاکٹر ماہ رنگ کہلاتی ہے۔

ماہ رنگ کو سردیاں پسند نہیں، خاص طور پر دسمبر کا مہینہ، یہاں صرف جسم نہیں روح تک اکڑ جاتی ہے۔ وہ دسمبر کا مہینہ ہی تھا، جب وہ ماہ رنگ کے والد کو اسکے 13 سالہ بھائی ناصر بلوچ کے سامنے مارتے اور پِیٹتے ہوئے لے گئے تھے۔

اس بارے میں ماہ رنگ کہتی ہے ” والد کے جانے کا سب سے بڑا اثر میرے بھائی کو ہوا تھا، اْسے ہمیشہ اس بات کا ملال تھا کہ وہ ابو کو بچا نا سکے، جب ایلم(بھائی) کے سامنے ابو اٹھا کر لے گئے، تو اْنہیں گھسیٹا جا رہا تھا۔ اس دوران ابو کی گھڑی وہیں گرگئی تھی، ایلم اکثر یہی کہتا تھا کہ اس گھڑی کی طرح، اس کا وقت بھی وہیں رک گیاہے۔”

سات سال بِیت گئے، ماہ رنگ کا وہ تیرہ سالہ ایلم ( بھائی) ناصر اب اٹھارہ سال کا ہوگیا ہے اور ایف ایس سی کے امتحانوں کی تیاری کررہا ہے، وہی دسمبر کی جسم اور روح کو اکڑا دینا والا مہینہ ہے۔ 15 دسمبر کو دوبارہ انکے گھر میں وہی نقاب پوش و وردی پوش گھس جاتے ہیں، اب کے بارے ابو نہیں بلکہ اسی طرح بھائی کو مارتے ہوئے اور گھسیٹتے ہوئے لیجاتے ہیں۔

ماہ رنگ دوبارہ گڈانی لوٹتی ہے اور بحر بلوچ کے ساحل پر کھڑی ہوکر اپنے بینر، اپنے احتجاجی پلے کارڈ، اپنی چیخ اور احتجاجی نعرے واپس مانگتی ہے، ان پرانے بینروں سے غفار لانگو کا خون آلود نام پونچھ کر ناصر لانگو بلوچ لکھتی ہے اور اپنے دوسرے گھر کوئٹہ پریس کلب کو لوٹتی ہے۔

اب ماہ رنگ دوبارہ وہی سب دہرانے لگتی، جس کا مشق وہ بچپن سے کرتی آرہی ہے۔ احتجاج، پریس کانفرنس، اپیلیں لیکن ایک نئی امید کے ساتھ کہ اس بار ان پانچ بہنوں کا آخری سہارہ ناصر کندھوں پر نہیں بلکہ پیروں پر آئے گا۔

اپنی زندگی کو دو تصویروں میں ماہ رنگ قید کرنے کی کوشش کرتی ہے اور کہتی ہے کہ ” ہماری زندگی ان دو تصویروں میں قید ہے۔” جن میں سے ایک میں ناصر بلوچ، ماہ رنگ اور دوسرے بچے اپنے والد غفار لانگو کی رہائی کیلئے احتجاج کرتے ہوئے اپنی کتابیں جلا رہے ہیں اور دوسری تصویر جس میں ماہ رنگ کی چھوٹی بہن مہرانیسری بلوچ اپنی کلاسیں چھوڑ کر اسی بھائی ناصر بلوچ کیلئے روڈ پر بیٹھی احتجاج کررہی ہے۔