لیاری قتل عام
دی بلوچستان پوسٹ تحقیقاتی رپورٹ
کل رات آٹھ بجے ذکری پاڑہ علی محمد محلہ لیاری کی مصروف زندگی اس وقت تتر بتر ہونے لگی، جب ہر طرف اندھا دھند فائرنگ شروع ہوئی اور گولیوں کی چلنے کی آوازیں فضا میں گونجنے لگیں۔ فائرنگ کا یہ سلسلہ مزید پانچ گھنٹے یونہی چلتا رہا، جو بالآخر پانچ شہریوں کے جانبحق ہونے اور درجنوں کے گرفتاری پر منتج ہوا۔
لیاری کسی بھی معنوں میں ایک پرامن علاقہ کہلایا نہیں جاسکتا، پاکستانی سیاسی جماعتوں کی طاقت کے کھیل کے رسی کشی نے بلوچوں کے اس آبائی علاقے کو جنوبی ایشیاء کے خطرناک ترین علاقوں میں سے ایک بناکر رکھ دیا ہے۔
لیاری کا نام سنتے ہی پہلا لفظ جو ہمارے ذہنوں میں آتا ہے، وہ یہاں کے خونی ” گینگ وارز” ہیں، جنہوں نے گذشتہ چند دہائیوں کے دوران ہزاروں نوجوانوں کو لقمہ اجل بنادیا ہے۔ یہاں کئی گروہ اور گروہ سربراہان بسیرا کیئے ہوئے ہیں، جنہیں مقامی لوگ ” لالا” کہہ کر پکارتے ہیں، جو نسلوں سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔
ان میں سے ہر گینگ کو ایک خاص وقت کیلئے کھلی چھوٹ حاصل ہوجاتی ہے، اسکا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس دوران اسمبلی میں کونسی پارٹی کی حکومت ہے، کیونکہ یہ گروہ زیادہ تر انہی سیاسی پارٹیوں کے پراکسی ہیں۔ یہ سیاسی جماعتیں اپنے ” گندے کام” انہی گروہوں سے کرواتے ہیں اور بدلے میں انہیں کھلی چھوٹ دے دیتے ہیں۔
مقامی الیکٹرانک میڈیا کل رات کے واقعے کے کوریج کیلئے فوراً پہنچ گئی لیکن ان میں سے ہرکوئی اس واقعے کو کسی مختلف رنگ میں بیان کررہا تھا۔ ان ٹی وی چینلوں کے ٹِکروں پر ایسے جملے تواتر کے ساتھ نظر آنے لگے کہ ” مسلح افراد کے حملے میں رینجر جوان جانبحق” ، ” انکاونٹر میں پانچ دہشتگرد ہلاک” ، ” فائرنگ کے تبادلے میں مشتبہ افراد ہلاک” وغیرہ۔
دی بلوچستان پوسٹ ٹیم کو اس بات کا احساس ہوا کہ اس واقعے کے پیچھے کچھ چھپایا جارہا ہے، لہٰذا دی بلوچستان پوسٹ کی تحقیقاتی ٹیم نے اس خبر کے بابت تحقیقات کی اور کچھ ہوشربا حقائق تک پہنچی۔
ٹی بی پی کو باوثوق علاقائی ذرائع سے یہ معلوم ہوا کہ پاکستانی رینجرز کی ایک گاڈی کا آمنا سامنا کچھ لوگوں سے ہوا جن کا تعلق ایک گینگ سے تھا۔ کچھ اطلاعات کے مطابق بدنام زمانہ گینگ کے سرغنہ غفار ذکری بھی وہاں موجود تھا لیکن اس خبر کی تصدیق آزاد ذرائع سے نہیں ہوسکی۔
دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر فائرنگ کی گئی، فائرنگ کے اس تبادلے میں ایک رینجرز اہلکار ہلاک اور تین زخمی ہوئے، گینگ کے کسی کارندے کے ہلاک یا زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں، لیکن ایک راہگیر چاکر بلوچ اتنا خوش قسمت نہیں تھا، ذہنی طور پر معذور چاکر بلوچ ایک عام شام اور سڑک پر چلتی گولیوں میں فرق کرنے سے محروم اپنے گھر سے باہر نکلتا ہے اور رینجرز اہلکار قریب سے اسکی آنکھ میں گولی مار کر اسکی زندگی وہیں تمام کرکے پھر اسے گینگ کا کارندہ ظاھر کرتے ہیں۔
چاکر بلوچ اپنا ذہنی توازن تب شدید اذیت کا شکار ہونے کے بعد کھو بیٹھا تھا، جب تین سال پہلے پاکستانی خفیہ اداروں نے اسے بلوچستان کے علاقے کیچ سے اغواء کرکے شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور طویل عرصے تک اپنے غیر قانونی حراست میں رکھا تھا۔
چاکر بلوچ کو ان پانچ دہشتگردوں میں سے ایک قرار دیا گیا، جو کل مارے گئے تھے اور پاکستانی میڈیا زور و شور سے رپورٹنگ کررہی تھی کہ چاکر بلوچ ان میں سے ایک ہے، جنہوں نے رینجرز اہلکار کو ہلاک کیا، تاہم دی بلوچستان پوسٹ کی ٹیم کو ایسے متعدد ویڈیوز موصول ہوئے، جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ چاکر بلوچ اپنے معصومانہ حرکات سے بچوں کو محظوظ کررہا ہے۔
چاکر بلوچ اکیلا شخص نہیں تھا، جسکا کل رات بے رحمانہ قتل ہوا۔ دی بلوچستان پوسٹ کو کم از دو مزید مقتولین کے بارے میں انکے خاندانی ذرائع سے معلومات حاصل ہوئی ہے، جو نا کسی گینگ میں تھے اور سب سے اہم یہ کہ کل رات وہ اس علاقے میں موجود تک نہیں تھے، بلکہ وہ گذشتہ کئی ماہ سے غائب تھے۔
ان دو مقتولین کو پاکستانی رینجرز اہلکاروں نے چند ماہ پہلے کراچی کے مختلف علاقوں سے اغواء کرکے لے گئے تھے اور تب سے وہ لاپتہ تھے۔
ان میں سے ایک مہر علی تھے، ان کا تعلق بلوچستان کے بد قسمت شہر آواران سے تھا، جہاں فوجی آپریشنز روزانہ کا معمول ہیں۔ مہر علی کچھ عرصے قبل ہجرت کرکے کراچی منتقل ہوگئے تھے تاکہ ایک پرامن ماحول میں رہ سکے، لیکن بری قسمت نے اسکا پیچھا کراچی تک نہیں چھوڑا۔
انہیں 14 نومبر 2016 کو رینجرز نے کراچی کے علاقے لیاری سے گرفتار کیا تھا، وہ تب سے ان کی حراست میں تھے اور ” لاپتہ” تھے۔ حتیٰ کے انکے گمشدگی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں انکے اہلخانہ نے ایک پیٹیشن بھی دائر کیا ہوا تھا۔
دوسرے شخص کی شناخت عامر علی ولد علی بخش کے نام سے ہوئی۔ دی بلوچستان پوسٹ نے عامر علی کے خاندان سے خصوصی طور پر بات کی تاکہ حقائق تک پہنچا جاسکے۔
عامر علی ایک کیبل ٹی وی کمپنی میں کام کرتا تھا، اسے نو مہینے پہلے رینجرز اہلکاروں نے کراچی کے علاقے ملیر سے اغواء کیا تھا، عامر تب سے غائب تھا۔ اسکے خاندان والوں نے الزام عائد کیا ہے کہ رینجرز اہلکاروں نے کئی بار ان سے رابطہ کرکے عامر کے رہائی کے بدلے تاوان طلب کیا تھا، لیکن وہ اتنی رقم فراہم نہیں کرسکتے تھے۔
دی بلوچستان پوسٹ کی ٹیم نے باقی مقتولین کے تصاویر کا جائزہ لیا، تو ان سے بھی صاف ظاھر ہورہا تھا کہ انہیں گولیاں بہت قریب سے ماری گئی ہیں، جس کی وجہ سے ایسا نہیں لگتا کہ وہ کسی مقابلے میں مارے گئے ہیں، جس سے اس شک کو تقویت ملتی ہے کہ باقی دو افراد بھی پہلے سے اغواء شدہ اشخاص ہیں، جنہیں جعلی مقابلے میں مارا گیا ہے۔
اسکے علاوہ پاکستانی میڈیا مقابلے میں بھاری ہتھیاروں کے استعمال کا تذکرہ کررہا ہے، جبکہ میڈیا میں ظاھر کی گئی تصاویر سے کسی مقابلے کا تاثر نہیں ابھرتا۔ یہ تمام مبہم حوالہ جات ایک جعلی مقابلے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
ایک تجزیہ نگار نے نام نا ظاھر کرنے کی شرط پر ٹی بی پی سے بات کرتا ہوئے کہا کہ ” ایسا ظاھر ہوتا ہے کہ رینجرز نے اپنے ساتھی اہلکار کے ہلاکت کا بدلا پہلے سے گرفتار اور غیر مسلح بے گناہ بلوچ نوجوانوں سے لیا ہے، یہ طریقہ کار پہلے بھی بلوچستان اور کے پی کے میں دیکھا جاچکا ہے اور اب اسے کراچی میں دہرایا جارہا ہے۔”
کل رات سے اس پورے علاقے کو پاکستانی فورسز نے گھیرے میں لے رکھا ہے، کئی نوجوانوں کو رینجرز اٹھا کر لے گئی ہے اور کسی کو بھی علاقے کے اندر یا باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔ کل رات سے جاری ان دل دہلا دینے واقعات کی وجہ سے اسی گلی میں ہی ایک خاتون دل کے دورے سے انتقال کرگئی۔
اس پوری کہانی میں سب سے خطرناک اور سب سے پریشان کن امر نام نہاد قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حاصل اسثنیٰ ہے۔ کل رات کے واقعے میں جرائم پیشہ گروہ اور پاکستانی فورسز کے طریقہ واردات میں حد درجہ مماثلت ہے۔ اپنے بدلے کی آگ میں ان لوگوں کو قتل کرنا جو آپ کے حراست میں ہیں، قرون وسطیٰ کے وار لارڈوں کی خاصیت تھی، وہی حرکات جب ایک میٹروپولیٹن شہر میں ایک ” قانون نافذ کرنے والے ادارے” کی جانب سے ہوں تو پھر یہ دہلا دینے والی بات ہے۔
لیاری کو سماجی اعتبار سے ہمیشہ سے ہی دیوار سے لگایا گیا ہے، کسی زمانے میں کراچی کے ترقی پسند سیاست اور بلوچ قوم پرستی کے گڑھ لیاری کو اب جرائم کی دنیا میں تبدیل کیا گیا ہے۔
ٹی بی پی سے بات کرتے ہوئے ایک بلوچ سیاسی کارکن نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ بلوچ سیاسی قوتیں لیاری کے بابت اپنی ذمہ داریاں پوری کریں، لیاری میں یہ بے جا قتل و غارت صرف اس صورت روکی جاسکتی ہے، جب بلوچ نوجوانوں کی توانائیاں دوبارہ ترقی پسند بلوچ قوم پرست سیاست کی جانب مبذول کی جائیں۔ بلوچ سیاسی قوتوں کو ایسے راستے اختیار کرنے ہونگے کہ وہ ان مخالف عناصر کو روکنے میں کامیاب ہوں جن کے پیچھے پوری ریاستی مشینری ہے۔