لیاری الیکشن نہیں امن چاہتی ہے: کریاب بلوچ

290

لیاری الیکشن نہیں امن چاہتی ہے

کریاب بلوچ

 

لیاری کے باشعور رہائشیوں نے پچھلے ایک سال میں آرٹ، ایجوکیشن، اسپورٹس  اور کلچرل پروگراموں اور دیگر سماجی کاموں میں لیاری کے عوام کو مصروف کرنے کی کوشش کی تو ریاست نے وردی والی دہشتگردی شروع کردی.

لیاری کے خوبصورت ماحول کو پھر سے بگاڑنے کا اپنا وہی ریاستی ڈرامہ شروع کردیا ہے، جس کو ہم پچھلے دو دیاہیوں سے دیکھتے آرہے ہیں.

کبھی کسی بے گناہ کو مار کر گینگ وار کا سرغنہ بناکر پیش کیا اور کبھی چاکر بلوچ جیسے ذہنی طور پر معذور اور مستانہ کو شہید کرکے اُسے بلوچستان لبریشن آرمی کا کمانڈر بناکر پیش کیا گیا.

ہوسکتا ہے کل یہ لیاری کے نامدار موالی عابد_شاکا کو بھی بھارت کا جاسوس قرار دیں کیونکہ ایسے ڈرامے پاکستان میں آجکل بہت دکھائے جارہے ہیں.

جب بھی لیاری میں کلچرل پروگراموں کا اہتمام ہوا ہو، تعلیمی سرگرمیوں کو فروغ دیا گیا ہو، ادبی سرگرمیاں زور و شورو پر رہیں یا اسپورٹس کو ترجیح دی گئی ہو تو ریاست نے امن قائم کرنے کی بجائے انکو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے ان پر ریاستی سرپرستی میں دہشتگردی شروع کردی.

بوٹ والوں کا اور میڈیا کے ٹائی سوٹ والوں کی یاری کا تو پوری پاکستان کو علم ہے جب تک بوٹ والے ہیں تب تک ٹائی سوٹ والے انکی پالش کرتے رہینگے.

لیاری پر بربریت کرنے کے اس جُرم میں پاکستان پیپلز پارٹی برابر شریک دار ہے، ایک سیاسی پارٹی کا فرض ہوتا ہے وہ اپنے ووٹرز کو تحفظ فراہم کرے، انکی بنیادی ضرورتوں کی گارنٹر بنے لیکن پیپلز پارٹی نے ہمیشہ ریاست کی بربریت کا ساتھ دیا اور خاموشی اختیار کی.

لیاری میں نوجوانوں کا جو قتل عام ہوا، اس بربریت پر سیاسی پارٹیوں کی خاموشی ایک ملی بھگت ہے، آنے والے الیکشن کے لیئے گراونڈ تیار کیا جارہا ہے، جس کا اندازہ پی پی پی کی اور دوسری سیاسی پارٹیوں کی خاموشی سے لگایا جاسکتا ہے۔ دراصل لیاری کے عوام کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ آپ کے مسئلوں کا حل ان پارٹیوں کے سیاستدانوں کے پاس ہے لہٰذا لیاری کی مدد یہی کرسکتے ہیں.

اگر اس بار لیاری کی عوام نے ان پارٹیوں اور الیکشنوں کا بائیکاٹ نہیں کیا، تو آنے والے سالوں میں حکومت پھر ایک نئے گینگ کو جنم دیگی جو آنے والے وقت میں لوگوں سے بھتہ نہیں انکی اولادیں اور جائیداد مانگے گی اور یہ ایک خوفناک آپریشن ہوگا جس کا مقصد لیاری سے بلوچ نسل کی منتقلی ہوگی.

لیاری میں ہونے والے ظلم  کی داستانوں کو اگر لکھا جائے تو شاید لائبریریاں بھر جائیں، لیکن دنیا کی تاریخ لیاری کو کیسے لکھے گی اسکا فیصلہ لیاری کی عوام کو کرنا ہے، یہ فیصلہ لیاری کو کرنا ہے کہ بھٹو لاڑکانہ میں دفن ہے یا لیاری میں بے گناہ لاشوں کا تماشا دیکھ رہا ہے؟

زندہ قومیں اپنی مستقبل اپنی آنے والی نسلوں کا سوچتے ہیں اور مردہ قومیں مردہ پرستی کرکے آنے والے نسلوں کو قبرستان اور بنجر زمینوں کے علاوہ کُچھ نہیں دے سکتے اور بنجر زمین کو مسافر اقوام گلستان میں تبدیل کرکے اسے اپنا مادرے وطن بناتی ہیں.

فیصلہ لیاری اور کراچی کے تمام بلوچ قوم کو کرنا ہے وہ کیا چاہتے ہیں؟ اس شہر کو آباد کرنے والے آج معاشی، کاروباری، ثقافتی اور تعلیمی لحاظ سے اقلیت میں تبدیل کیے جاچکے ہیں، لیکن اب اُنکو صفحہ ہستی سے مٹانے کی پوری کوشش کی جارہی ہے.