قوم سے قوم تک کا سفر
نوروز لاشاری
قوم کسی بھی علاقے میں رہنے والے افراد کا وہ گروہ ہوتاہے جس کے آباواجداء،تاریخ،رسم ورواج ایک جیسے ہوتے ہیں اور جس کے افراد ایک ہی ثقافت اور زبان پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ کسی بھی قوم کی ثقافت اسکے آباواجداء کی قربانیوں کی آئینہ دار ہوتی ہےاور اس قوم کے رسم ورواج کافی صدیوں سے قائم ودائم ہوتےہیں، یوں کسی بھی قوم کی تخلیق انکی تاریخی قربانیوں اور صدیوں سے چلے آرہے ثقافت اور رسم ورواج کا نتیجہ ہوتی ہے اور انکی ثقافت کے ساتھ ساتھ انکی زبان بھی اس قوم کی پہچان ہوتی ہے۔
قوم کی ہر تعریف کی رو سےقومی تشخص کیلئے اس قوم کی تاریخ و ثقافت کا بہت ہی اہم کردار ہوتا ہے اور بلاشبہ زبان کا بھی ایک اہم کردار ہوتا ہے، مگر ہر معاملے میں صرف زبان کی بنیاد پر قومی تشخص کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کیونکہ ایک طرف تو زبان صرف ایک ذریعہ ہے، دوسروں تک اپنی بات پہنچانے کااور دوسری طرف یہ فطرت انسانی ہے کہ انسان کو ہر نئی چیز اور نئی زبان اپنانے کا جنون ہوتا ہے، اس لیئے ہم صرف زبان کو کسی قوم کا نمائندہ نہیں کہہ سکتے۔
تاریخ کے اوراق قوموں کے زوال کی تاریخ ووجوہات سے بھرے پڑے ہیں اور ان تمام اوراق میں صرف ایک بات مشترک مل سکی وہ یہ تھی کہ قوموں کا عروج تب ہوا جب وہ تمام تر تعصبات سے بالاتر ہوکر صرف اپنےقومی تشخص کوآگے لے کے چلے جبکہ ان قوموں پے زوال تب آیا جب ان میں کسی نہ کسی بنیاد پے پھوٹ پڑگئی۔ اس طرح کی ایک مثال ہمارے ملک میں موجود بلوچ قوم کی لی جاسکتی۔ بلوچ جب متحد تھے تو کوئی بھی انکاکبھی بال بھی بیکا نہ کرسکااوربلوچوں کو زیر کرنے کے تمام حربے ہمیشہ ناکام ثابت ہوتے رہے۔ بلوچوں کی سرزمین جوکہ معدنیات سے مالامال تھی اور اس پے قبضہ کی ہرکوشش رائیگاں جاچکی تھی۔ تب اچانک سے بلوچوں کے زوال کا نیامنصوبہ بنایا گیا اور اس منصوبے کا مقصد نہ صرف بلوچوں کو کمزور کر کے انکی معدنیات پے قابو پانا تھا بلکہ انکی قومی شناخت ہی چھین لینا تھا تاکہ انکی نسلوں کو بھی انکی تاریخ و ثقافت کی خبر نہ ہو۔
اس معاملے میں سب سے پہلا اقدام بلوچ سرداروں کو اقتدار اور مراعات کی لالچ دے کر بلوچستان کے ٹکڑے کرناتھا۔ یہ کام برطانوی حکومت نے کردیا، جب دوسری جنگ عظیم میں انہوں نے بلوچستان کا سیستان حصہ ایران کو دے دیا اور ہلمند کو افغانستان میں شامل کردیا گیااورباقی بلوچستان کو ریاستوں میں تقسیم کر کے ریاست قلات کو قائم مقام بنا دیا۔ برطانیہ کے یہاں سے جانے کے بعد بھی اس سلسلہ کو تیز کردیا گیااور تین سال بعد ہی ڈیرہ غازی خان جو کہ ریاست قلات(موجودہ بلوچستان)کے ماتحت تھااسکو سرداروں اورحکومت کی ملی جلی سازش کے تحت پنجاب میں شامل کردیاگیا مگر بلوچ کسی صورت زیر ہونےوالے نہ تھے لہٰذا ایک ایسا اقدام کیاگیاکہ اس علاقے میں دوسری اقوام کو نوکری اور کاروبارکے بہانے منتقل کیاگیا اور یہاں پر ایک زبان جاٹکی یا ملتانی(موجودہ سرائیکی)کو عام کیا گیا تاکہ بلوچوں کی نئی نسل اس زبان کو تیزی سے اپناکر اپنا قومی تشخص کھو دیں۔
فطرت انسانی کے تحت نئی نسل نے اس زبان کو دھڑادھڑاپنانا شروع کردیا، مگر اپنے قومی تشخص کو برقراررکھااس سلسلے میں کوہ سلیمان کے بلوچوں نے اس نئی زبان کو مکمل مسترد کرتے ہوئے اپنا قومی تشخص برقرار رکھا۔ اسکے بعد راجن پور کو 1982 میں ڈیرہ غازی خان سے الگ کرکے ضلع بنا دیا گیا، جبکہ ڈیرہ پہ قابو پانے کے بعد وہاں پر ایٹمی عنصریورینیم کی کھدائی کا کام شروع کر کے ایٹمی اثاثے بنا کرفاضل مواد کو وہیں پھینکنا شروع کردیا گیا، اس طرح دو طریقوں سے بلوچ قوم کا استحصال کیا گیا، ایک طرف جنہوں نے نئی زبان کو اپنایا تو دوسری طرف یورینیم کے فاضل مواد سے کینسرجیسی بیماریاں عام ہوگئیں اور یوں جنہوں نے نئی زبان کو نہیں اپنایا تھا وہ کینسر سے مرنا شروع ہوگئے۔
اس سلسلے میں تیزی لانے کے لیئے نئی نسل میں لسانیت کو عام کر کے علیحدہ صوبے کی ڈیمانڈ کا شوشا چھوڑ دیا گیا کیونکہ نئی نسل کے نوجوانوں کو انکے آباءواجداء کی تاریخ اورقربانیوں کا کوئی علم ہی نہ تھا، اس لیئے انہوں نے فوراً اس شوشے کو قبول کر لیا، اور یوں ایک پوری قوم کو بلوچ سے سرائیکی بنا دیا گیا اور انکو ایسی تعلیم دی کہ قوم کی تشکیل کے لیئے تاریخ و ثقافت سے زیادہ زبان کی اہمیت بتائی، جس سے نوجوانوں نے اپنے آباواجداء کی قربانیوں اور اپنی قومی تاریخ جانے بغیر لسانی بنیادوں پہ خود کو سرائیکی تسلیم کرلیا یوں راتوں رات ایک نئی قوم کی تشکیل ہوگئی، مگر عقل انسانی اس بات پہ حیران ہوتی ہے کہ کیسے ایک قوم کے افراد نے اپنے آباواجداء کے درس اور تشخص کو بھلا کر ایک نئے قوم کو جنم دیا اور کیسے وہ لوگ اس نئی شناخت کے ساتھ زندہ بھی رہ سکتے ہیں۔