قلم سے تیر تک کا سفر
تحریر: جیئند بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ : کالم
علمی دنیا کا ایک ادنی’ سا طالب علم ہوں، چند مفکرین، دانشوران, قلم کاروں اور آزادی، مساوات حق و حقوق کے علمبرداروں سے کچھ سیکھنے کو ضرور ملا ہے. جب ہم دنیا کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں، ملکوں کی آزادی، خوشحالی ،ترقی و انسانی وقار کی بلندی دیکھتے ہیں اور پھر جب اپنی تباہ حالی دیکھتے ہیں تو انسان دہل جاتا ہے، پھر اسی قبضہ گیریت کو قبول نہ کرکے اس کے خلاف جنگ کرکے اپنی قیمتی جانوں کا نظرانہ پیش کرنا یقیناً عام آدمی کی سوچ سے سوا ہے. بلوچ گذشتہ نصف صدی سے زائد اس ظلم کا شکار اپنی کھوئی ہوئی آزادی و قومی بقا کے لئے جدوجہد کرتے ہوئی ہزاروں نڈر بہادر سپوت پیدا کرتے ہوئے آیا ہے. ہزاروں آج بھی دشمن کی زندان میں عقوبت خانوں میں اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں صرف آزادی کی خاطر.
ان بہادر نوجوانوں کی فہرست میں ہمیں شہید ضیاءالرحمٰن عرف دلجان بلوچ جیسے باضمیر اور بہادر ورنا بھی ملتے ہیں، جنہوں نے انتہائی ہمت و حوصلے اور شعوری بنیادوں پر اپنے حصے کا کام سرانجام دیا. جب شہداء تراسانی کی شہادت کا یہ واقع رونما ہوا تو میں یہ سوچنے پہ مجبور ہوا کہ بندوق کسی کے ہاتھ میں بغیر چیمبر کے ہو تو ہم رخ موڑنے کی درخواست کرتے ہیں کہ کہیں کوئی ایکسیڈنٹ نہ ہو جائے، جب کہ وطن کے دیوانوں کی بندوق اپنا ہاتھ، اپنی تیر اور گردن بھی اپنی….. وہ لمحہ کیا ہوگا؟ اس وقت ذہن میں کیا سوچ چل رہی ہوگی؟ دل کی دھڑکنیں کیسی ہونگی؟ گردشِ خون کو سائنسی علوم کس بیانیہ میں پیش کر پائیں گے؟ اپنے ماں باپ کی فکر, بہن بھائیوں کا پیار, بچوں سےجدا ہونے کا عالم، زندگی کی خواہش یا پھر وطن کی آغوش میں شہید ہونے کا خوشی, اپنے مقصد میں سرخ رو ہونے کی خوشی یا پھر سے اپنے حصے کے کام رکنے کا خدشہ، وہ کیا لمحہ ہوگا جب ایک انسان اپنی زندگی سے زیادہ اپنے مقصد کے بارے میں سوچتے سوچتے جان دے رہا ہوگا؟
انہیں جو انتخاب کرنا تھا انہوں نے بلا جھجک کرلیا اور ساتھ میں یہ پیغام بھی آنے والے دوستوں کے لیے چھوڑ دیا کہ یہ زندگی مقصد و آزادی سے بڑھ کر نہیں اور اپنے آپ کو سب کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے امر کر گئے. شہید سنگت دلجان جیسے ہستی اس خطے کو برسوں بعد ملا تھا. بابو نوروز خان، سفر خان کے بعد شھید امتیاز، شھید حئی نثار کے کاروان کا ساتھی شھید دلجان نے ایک نئے عزم کے ساتھ کام کا آغاز ایسے وقت میں کیا، جب ہر طرف مایوسی کا عالم تھا۔ سنگت نے گذشتہ ادوار کے تمام جنگی تیاریوں اور دشمن کے عزائم کو بھانپ کر نئے انداز میں نئی انرجی کے ساتھ کام شروع کیا تھا اور بہت مختصر مدت میں اپنی محنت و قابلیت سے بہت کچھ بنا لیا تھا اور بہت کچھ اسے باقی کرنا بھی تھا. اب یہ زمہ داری دوستوں کے نازک کندھوں پہ رکھ کر وطن کی چاہ میں جان دے دی.
سنگت دلجان کی شہادت نے مجھ سمیت اور بہت سارے ہم جیسے نکموں کو یتیم بنا کر وطن کی فضا میں تحلیل ہوکر روپوش ہوگیا. سنگت شھید دلجان سے ملا کبھی نہیں تھا لیکن ملنے اور دیکھنے کی چاہت دونوں طرف سے تھی اور شاید مجھ جیسے بدنصیب کی قسمت میں یہ سب کہاں. سب کچھ نصیب اور ہمت کا کھیل ہے، یوں جب کوئی اپنی ذات سے نکلتا ہے، تو دنیا کی ہر حقیقت سے واقف ہوتا ہے ہماری جان، ہمارا دلجان ان تمام چیزوں سے بخوبی آگاہ تھا.
” قلم سے تیر تک کا سفر” دلجان نے کیسے اور کیوں طے کیا ان کے ایک دوست کی زبانی اور شہید کی کہانی سنو! میں استاد ضیاء الرحمن کو بہت قریب سے جانتا ہوں، سنگت کی سوچ گویا ہم سب سے مختلف تھی ہمیں یوں لگتا تھا کہ وہ ہمارے والدین کی طرح سب کی یکساں فکر کرتا تھا، اس سرزمین کے ہرچیز سے استاد کو اشد محبت تھی، اگر دوستوں میں کبھی چھوٹا سا بھی اختلاف ہوتا تو وہ اس انداز سے سمجھاتا کہ ہر نادان سمجھ جاتا اور خوشی خوشی اپنی ناراضگی ختم کردیتے تھے۔ استاد کا انداز بیان بہت شائستہ اور یارانہ ہوتا تھا، ہم ہمیشہ سنگت دلجان کی باتوں کو دل سے سنتے تھے، جب وہ اپنے بارے میں ہمیں سناتا با مشکل ہم پورا سن پاتے کیونکہ درد سے بھری اور آزادی کی خوشبو نظر آنے لگتی. استاد کی وہ باتیں میں کبھی بھول نہیں سکتا، جب وہ کہتے کہ مجھے ان پہاڑوں میدانوں سے بے انتہاء محبت ہے، مجھے اب ان کے دامن میں سکون ملتا ہے، بجائے نرم بستر اور بخملی کمبل جو جسم کو راحت دے. سردی گرمی دھوپ چھاؤں سے بچنے کےلیے ٹھنڈی ائرکنڈیشن ٹھنڈا اور صاف پانی اور سر کے نیچے تکیے کی اب ضرورت نہیں رہی، اس ممتا کے پیار سے بھرے مادروطن کے درخت، پتھر اور میدان خود ہمیں اپنی گود میں سلاتے ہیں.
استاد ضیاء بلوچ اپنے تعلیمی دور سے لیکر بی ایس او تک، ہمیں اپنی پورے دور سے آگاہ کیا کرتے تھے، شیخ زاہد ہسپتال میں اپنی ملازمت کیسے چھوڑ ی اور کیسے قلم سے بندوق کا سفر طے کیا، کمی کسی بھی چیز کی نہ تھی. ایک خواہش تھی اپنے وطن کی آزادی کی، خواہش تھی ذہنی غلامی سے نکلنے کی اور اس دھرتی کا حق چکانے کی، اپنے قوم کو غلامی سے نجات دلانے کی. وہ چند روپوں میں بکنے والے غلام سیاست دانوں کی سوچ کو ناکام بنانے کی خاطر نکلے تھے.
شھید سنگت دلجان شہید نثار جان, شہید مجید جان, شہید امیرلملک, شہید حق نواز، شھید امتیاز دلوش سمیت بلوچ قوم کے بہادر سپوتوں کی قربانی و انتھک جدوجہد کو بلوچ قوم کے لیے مشعل راہ سمجھ کر قومی غلامی سے نجات کا ذریعہ سمجھتا تھا. ہمیشہ یوں کہتا رہتا میرے وقت کے ساتھی یکے بعد دیگرے سب ایک ایک کر کے ہم سے جدا ہو گئے، اب ہماری زمہ داری ہے کہ ان کے کام کو کیسے ایمانداری سے سرانجام دیں. استاد کی باتوں کو بیان کرنا چاہوں تو شاید میری قلم اور ہاتھ رک جائیں پر اسکی تعریف ختم نہیں ہوگی.
اس دوست کی آنکھوں میں وہ پیار اور جزبہ دیکھا، جس سے یقین ہوا کہ آخر سنگت واقعی سب کے دلوں میں اپنا گھر بنا چکا تھا. سنگت کی بہادری اور اسکے ڈاکٹرائن نے مجھے بھی اپنا ایک مداح بنا دیا. یہ اس کی قابلیت تھی کہ ایک ایسے وقت میں کام کو پھر سے منظم کردیا.
جب میں یہ سوچتا ہوں تو سوچ کام کرنا چھوڑ دیتی ہے کہ خود پر تیر چلانا اور با خوشی شہادت نوش کرنا سوچ سے اوپرکی بات ہے. ایسے بھلا کون کر سکتا ہے ما سواۓ ایک وطن پرست کے جو کہ ذہنی طور پر پہلے سے تیار ہو کہ دشمن کے غلیظ ہاتھوں سے اپنے وطن کی آجوئی (آزادی) کےلیے جان تک دینے کو تیار ہو، تو یہ شعور کا یقیناً اعلیٰ مقام ہی ہوگا.
“طاق پہ ایک دیا جلا کے رکھا تھا,
ایک ہوا کے جھونکے نے آ بھجا دیا”.
شہید دلجان ہمیشہ ہمارے ساتھ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا اور ہمارے دلوں کی دھڑکن بن کر ہمارے دلوں پر ہمیشہ راج کرے گا. شھید دلجان سے ملاقات نہ ہو سکی لیکن اس کے بہت سے دوستوں سے ملاقات و رابطہ ضرور ہوا جو دلجان کو اپنا استاد مانتے ہیں، وجہ جاننا چاہا تو دوست بڑے ادب و احترام سے کہنے لگے سر جھوٹی سیاست اور چند پیسوں سے بکنے والے لوگ جو ہمیں غلامی کی دعوت روز دیتے رہتے ہیں لیکن حقیقت پر مبنی سوچ، انسان دوستی، وطن پرستی سے گریز کرنے کی دھمکی دے کر کہتے ہیں اگر اپنی موت کو گلے لگانا ہے تو جاو آزادی لے کے آؤ. کہتے ہیں وہ لوگ یہ دعوٰی کرتے رہتے ہیں پہاڑوں پہ کچھ بھٹکے اور جاہل لوگ ہیں جن کے پاس علم کی کمی ہے. ان میں سے ایک دوست نے بڑے معصومانہ انداز میں کہا “جناب لالچ اور بزدلی کی پٹیاں آپ نے اپنے آنکھوں پر باندھ کر رکھے ہوئے ہو، ہم نے نہیں. ان پہاڑوں میں کئی ڈاکٹر, وکیل, انجینئر, نظریے کے اعلٰی مقام پر فائز ہیں”.
دلجان کے دوستوں کی آنکھوں میں ایسی درد بھری پیاس دکھ رہا تھا اور کہنے لگے جب ہمارے دوست اور استاد نے ہمیں یہ درس دیا کہ کب تک ہم یوں غلامی کی زندگی گزارتے رہیں گے. اگر آج قربانی نہیں دیں گے تو کل ہماری نسلوں کو دینا ہی پڑے گا. شاید اس وقت لہو زیادہ دینا پڑے.
دلجان نے اپنی قابلیت خلوص بے لوث خدمت پر بہت کم عرصے میں جھالاوان کا کمان سنبھال کر اپنی زمہ داریاں خندہ پیشانی سے قبول کی تھیں، جو کہ اپنی بہادری سے ٹک تیر کے اعزازی نشان سے نوازا گیا تھا. شھید دلجان شھید بارگ جان نے شھید امیر اور شھید عرفان کی تاریخ زندہ کر کے دشمن کو شکست فاش دے دیا اور آنے والی نسلوں کے لیئے ایک مثال چھوڑ گئے.
شھید دلجان و شھید بارگ جان نے جس رستے کا انتخاب کیا تھا اس میں جان کھو دینا شھید کا مرتبہ حاصل کرنا ایک اعزاز ہوتا ہے. وہ لوگ کبھی شکست نہیں کھا سکتے جو اپنی موت کا وقت کا اور جگہ کا خود تعین کرتے ہیں. شکست ہمیشہ ان کے دشمن کے حصے میں آتی ہے.
میں کبھی نہیں کہوں گا کہ اللہ ان کے دوستوں کو گھر والوں کو صبر عطا کرے بلکہ یہ ایک آگ ہے، اسے بھڑکتے رہنا چاہیے. اس زخم کو روز کرید کرید کر تازہ ہرا بھرا رکھنا چاہیے تاکہ ہمیں احساس دلاتا رہے، اس آگ کو بھڑکانے کے لیے شھید دلجان جیسے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا ہوگا. اسی قربانی کے بدلے ہماری نسلیں اس غلامی کے داغ سے چھٹکارا حاصل کر سکیں گے.