فکری و نظریاتی رشتوں کا لاج ، دلجان بلوچ تحریر : جلال بلوچ
اور دلجان خود ایک فکر___!!دلجان ایسا کرو،دلجان ویسا کرو،ارے یار روٹی پکاؤ نہ، یار دیگ سنبھالو۔۔۔۔ یہ وہ الفاظ تھے جو میں نے دلو سے ملتے وقت سنے تھے۔
دلجان سے پہلے ملاقات کے وقت یہ الفاظ میرے کانوں میں خوب پڑے آخر تنگ ہوکر پیچھے دیکھنے پر مجبور ہوا۔ ایک نارمل قد، مسکراتا ہوا چہرہ، اور لمبے لمبے گھنے بال۔ ارے یار کیا ہوا آپ لوگوں کو، میں آدمی ہوں مشین نہیں ، کیسے کام کروں۔ کس کو بڑھائی دوں۔ دراصل دوست دلجان کو چھیڑ رہے تھے۔ کیونکہ وہ خود دوسروں کو خوب تنگ کرتا تھا۔ ایک دن سب دوستوں نے ایک پروگرام بنایا کہ آج دلجان کو خوب چھیڑنا ہے۔ اس لئے سب دوست دلجان کو اپنی طرف بلا رہے تھے کہ دلجان کو خوب تنگ کرکے خوب لطف اٹھایا جائے۔ کیونکہ دلجان خوش مزاج اور خوب مجلس کرنے والے دوستوں میں شمار ہوتا تھا۔
بے انتہا مہر و محبت سے بھرا ہوا دلوں کے سرتاج دلجان سے پہلی ملاقات غالبا 2013 میں اس وقت ہوا جب مجھ جیسا نا چیز پاکستانی بربریت سے جان بچانے بی ایل اے کے کیمپ میں پہنچ گیا ۔ اس کو میں اپنا خوش قسمتی سمجھوں یا کے بد قسمتی مجھے خود سمجھنے میں دشواری پیش آرہا ہے۔
دلجان سے بہت سے موضوعات پر بات چیت ہوتا تھا، جس میں دلو ایسے دلائل سامنے پیش کرتا تھا کہ آگے سوال کرنے کی ہمت ہی ختم ہو جاتا۔ کیونکہ جواب اتنا اطمینان بخش ہوتا جو دماغ میں آنے والے سوالوں کا بھی جواب ہوتا۔ میرے خیال سے دلو سیاسی و علمی دانشمندی کا ایک جیتا جاگتا مثال تھا ۔
2015 میں جب قلاتی مری کے سرینڈر ہونے کی خبرآئی، تو میں کچھ عجیب حرکات کر رہا تھا مجلسوں میں نا بیٹھنا اور اگر آ بھی جاتا تو بہت پریشان خود سے جستجو میں مگن رہتا۔ کچھ عجیب سا محسوس کرکے دلو نے ہمت جتا کر مجھ سے پوچھنے کی کوشش کی ”یار کیا بات ہے آپ پریشان لگ رہے ہو، میں تین دنوں سے محسوس کر رہا ہوں۔طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ گھر میں سب خیر خیریت ہے؟” دلومجھ سے پوچھنے لگا۔۔
”ہاں! یار سب کچھ ٹھیک ہے مگر میں سوچ رہا تھا قلاتی خان جیسا فراری 45 سال جدو جہد کر کے سرینڈرکررہا ہے۔ یہ کیا سوچ کر سرینڈر کر رہا تھا۔ وجہ کیا ہے کے اتنے سینئر فراری سرینڈر کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ اگر یہ 45 سال جہد میں رہ کر سرینڈر کر لیتا ہے۔ تو میرا اور تمہارا یا ہم سب کا کیا ہوگا۔ جو آزادی کے جہد میں طفل کے مانند ہیں۔”
دل جان ہلکی سی مسکراہٹ لیکر کہنے لگا۔۔۔۔۔
”ارے یار آپ اتنی سی بات کیلئے اتنے پریشان ہو چلے تھے۔ قربان کروں قلاتی جیسے لعنتی کو جس کی وجہ سے آپ پریشانی میں مبتلا ہو۔”
میری بات کو متوجہ ہوکر غور سے سنو اور اپنے دل و دماغ میں یہ بات ذرا اندر ٹھونس دو یہ ایک قلاتی خان ہے جو سرنڈر جیسے لعنت کو 45 سال جہد سے وابسطہ رہتے ہوئے آخر کار شرمندگی کی زہر کو گلے سے اتار دیا، پتہ ہے اصل وجہ کیا ہے۔
ایک تو ہماری آپس کی رسّہ کشی ہے۔ جس کی وجہ سے ہم ہر چار سال بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار بن رہے ہیں۔ دوسرا نظریہ و فکری بنیادوں کے
بغیر جہد میں رہنا ایک ایسی بیماری ہے جو اچانک ابھر کر پورے جسم کو ناکارا بنا دیتا ہے۔ یہ قلاتی خان اسی طرح کے بیماری میں مبتلا ہوا ہوگا۔ جو آج اس کے وجود پر لعنت بن کر اسے نا کارہ بنا چکا ہے۔ نظریے کے بغیر بندوق کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ بلکہ میں اسے بے لگام جانور سے بھی زیادہ خطرناک سمجھتا ہوں__!!
دل جان آپ سے اتنا قریب بھی نہیں رہا ناکہ دور رہا آج بھی جب سانسیں چل رہی ہیں تو سانسوں میں آپکے نظریہ سے بھر پور مہر خوشبو محسوس کررہا ہوں۔ وہ پل میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا جو ہر صبح نیٹ ورک کی ذمہ داری کندھوں پر لیئے ہوئے بھوکے تین گھنٹے سفر پر حال احوال کیلئے جاتے تھے آپ۔
جو شام ڈھلتے ہی واپس آجاتے تھے۔ جس کی گواہی آپکا لاغر بدن خود دے رہا تھا۔ جو مسلسل دو سالوں تک دن کے کھانے سے محروم رہا تھا__!!
میری زندگی میں بغاوت پہلے سے تھا مگر اس بغاوت کو فکری شعور ایک امیر جان اور ایک دلجان نے دلائی۔ میرے دل و دماغ میں نظریہ اور فکری بندھن اور اپنے لئے فوقیت کی ایک کتاب چھاپ کے رکھ دی ہے_!!
ہم ضد پر اڑے ہوئے ہیں دیکھتے ہیں پہاڑ ٹوٹے گا یا سر۔
دلو آپکا آخری میسج خود دشمن کیلئے شکست کا زوردار طمانچہ ہے۔ کیونکہ آپ نے اپنا ضد جو کہ میں غلامی کی ایک علامت قرار دیتا ہوں۔ وہ ضد اپنوں کے لئے نہیں بلکہ دشمن کے لئے تھا۔ یہ تھا انقلاب اور یہ تھا انقلابی عمل_!!