زاہد بلوچ ایک عظیم سیاسی اُستاد
تحریر : مہناز بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ : کالم
بی ایس او آزاد ابتدا سے لیکرآج تک بلوچ قومی تحریک میں ایک اہم کردارادا کرتا چلا آرہاہے۔ جو1961,62 کے بلوچ اسٹوڈنٹس ایجوکیشن آرگنائزیشن سے لیکر 2002 تک بی ایس او آزاد کئی بار نشیب وفراز سے گزرتا رہامگر مختلف ادوار میں قابض پاکستان نے بی ایس او کو کئی بار توڑنے کی ناکام کوشش کی، حتیٰ کہ 2006میں نام نہاد قوم پرستو ں کے ذریعے تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان کو ناکامی کا سامنا کر نا پڑا، اس سلسلے کو وہ وسعت دیتے رہے آج سردار صاحب اور مڈل کلاس صاحبان نے بی ایس او کو اپنے بنائے گئے پارلیمانی پارٹی کے پاکٹ آرگنائزیشن بنانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی ۔ ہر دورمیں بی ایس او آذاد کے نظریاتی ساتھی اپنے خون سے اس مقدس تنظیم کی آبیاری کرتے آرہے ہیں، جن میں شہید مجید، فدا، رضا جہانگیر،کمبر چاکر، شفیع، کامریڈ قیوم سمیت سینکڑوں نو جوان قربان ہوئے اور بہت سارے ساتھی جنہوں نے ہمیشہ بی ایس او آزاد کو منظم و مضبوط بنانے میں سخت ترین حالات کا مقابلہ کیا جنکے قربانیوں کے بدولت آج بی ایس او آزاد ہزار مشکلات اور ریاستی جبر کے باوجود بلوچ نوجوانوں کا آئیڈیل بن چکا ہے2008کو شروع کیئے جانے والے ریاستی کریک ڈاؤن بی ایس او کے لاتعداد کیڈرز کو اغوا و لاپتہ کرنیکے بعد اُن کے مسخ شدہ لاشوں کوپھینکا جا چکا ہے۔ جو بی ایس او کے ساتھ کیئے جانے والے سب سے سخت ترین دور تھا۔ اُس وقت ہمارے تنظیمی دوست ریاستی ظلم و جبر کا سامناکررہے تھے، جہاں ایک طرف ریاستی ظلم و بربریت کو سہنے کے علاوہ دوسری طرف بد قسمتی سے بی ایس او کے اپنے ساتھی دوسروں کی فرمائش پر تنظیم کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلا رہے تھے۔ بی ایس او کے مرکزی قائد ین پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے، ان کے تنظیمی ناموں کو سوشل میڈیا اور اخبارات کی زینت بنائی گئی۔ وہ قلم جوکبھی بی ایس او آزاد کے طاقت اور ہتھیار تھے، وہی اس کیخلاف لکھنے لگے، اس کیفیت میں بی ایس او کے زونل کارکنان تذبذب کا شکاررہے۔
بلوچ سماج میں سوشل میڈیا پر ہونے والی مہم گردش کرتی رہی، ہر کسی نے بی ایس او پر تنقید شروع کی چونکہ یہ تمام پروپیگنڈے ایک مضبوط گروپ کی جانب سے ہورہے تھے، مگر بد بختی سے ہم آسانی سے ان کا شکار ہوئے۔ بی ایس او کی قیادت چیئرمین زاہدبلوچ اور رضاجہانگیر تھے، وہ ان پیدا کردہ حالات میں تنظیم کاری کیلئے نکلے تاکہ بی ایس او کے دوست سازشی عناصر کا حصہ نہ بنیں، مگر وائے قسمت وہ عظیم لیڈرز خود ریاستی ظلم وجبر کا عتاب رہے، جن میں شہید رضا کی شہادت اور چیرمین زاہد بلوچ کی اغوا نما گرفتاری عمل میں آئی۔
بی ایس او کا کارواں مزید منظم ہوتا گیا، نظریاتی سنگت اپنے چیرمین کے بازیابی اور سازشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے میدان میں نکلے، ہزار سیکیورٹی مشکلات کے باوجود کریمہ بلوچ جیسی باہمت لیڈر چیئرمین زاہد بلوچ کی بازیابی پر تنظیم کے مرکزی کمیٹی کے رکن لطیف جوہر جومرکزی کردہ فیصلے تادم مرگ بھوک ہڑتال کراچی پریس کلب کے سامنے تاریخ ساز احتجاج اپناکر عالمی سطح پر پذیرائی حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ مگر زاہد بلوچ تاحال بازیاب نہ ہو پائے۔
اگر میں کہہ دوں کہ چیرمین زاہد بلوچ ایک انمول کتاب کی مانند ہے، جس کے ہر صفحے میں بلوچ قومی تحریک اور بی ایس او آذاد کی بقا اور اس کے قوائدو ضوابط دیکھنے اور پڑھنے کو ملتے ہیں، تو میں غلط نہ ہونگی، اگر دنیا بھر کی سیاسی تنظیموں کو دیکھاجائے تو ان کا بنیادی اکائی آئین اور منشور سے لیکرایک واضح سیاسی تبدیلی کے لیئے پالیسیاں مرتب کرنا ہے۔ انہی پالیسوں کو جوڑ کر ایک سیاسی تبدیلی کی طرف گامزن ہونا اور عمل کرنا کامیابی کی جانب پہلا قدم تصور کیا جاسکتا ہے، اسی طرح اگر چیئر مین زاہدبلوچ کے سیاسی کیریئر کو دیکھاجائے، تو وہ تمام صلاحیتوں کا مالک اور سیاسی رویے اپنانے میں اپنی مثال آپ تھے۔
زاہدبلوچ ہماوقت تنظیم کے کاموں اور سیاسی مباحثوں میں مصروف رہتے، جس نے ہمیشہ تنظیمی اصولوں کی پابندی پر کبھی کو ئی کمزوری آنے نہیں دیا۔ وہ تنظیم کے مرکزی چیئرمین ہونے کے باوجود ایک سیاسی ورکر کی طرح کام کرتا رہااور تنظیم کے ہر ورکر کو سیاسی تربیت اور مطالعہ کرنے پر زوردیتے، چونکہ ہم مطالعے سے سیاسی پیچیدگیوں کو سمجھ سکتے ہیں، زاہد بلوچ نے بی ایس او کی تاریخ میں چند ایسی پالیسیاں اپنانے پر زور دیئے، جو یقیناً آج بی ایس او کے بقا کا ضامن ہیں، زاہد بلوچ اور اُسکے ٹیم ورک کے عمدہ پالسیز، پختہ سوچ ہما وقت کے محنت اور لگن نے ہی ثابت کر دیا تھا کہ وہ بلوچ قوم کا ایک منصف لیڈر تھا۔ زاہدبلوچ کا سیاسی کردار اور ثابت قدمی بلوچ قومی تحریک میں ہمیشہ سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا۔ زاہد بلوچ بی ایس او کے نظریاتی ساتھیوں کا آئیڈیل ہے اور رہے گاآج زاہد بلوچ کے اغواء نما گرفتاری کو 4 سال کا عرصہ بیت چکا ہے مگر آج بھی ہم اُن کے آنے کا منتظر ہیں ۔۔۔۔۔