رات کی تاریکی کا چراغ، اب زنداں میں اپنا دیا جلانے چلا
تحریر :مسلم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ: کالم
کہتے ہیں کہ دنیا کا ہر انسان کسی نہ کسی صلاحیت سے مالا مال ہوتا ہے اور اپنے اسی صلاحیت کے بل بوتے پر وہ ایسے کارنامےسر انجام دیتا ہے کہ دنیا اسے ہمیشہ اچھے ناموں سے یاد کرتی ہے، بلوچستان کی سر زمین میں ایسے سپوتوں نے جنم لیا جنہوں نے مختلف شعبوں سے منسلک ہو کر بلوچ قومی جدوجہد کو منزل مقصود تک پہنچاننے کا عزم کیا۔ ڈاکٹر، وکیل، استاد طالب علم غرض ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے بلوچ فرزند ریاستی عتاب کا شکار رہے۔
خاص کر بلوچ طالب علم ہر دور میں ریاست کے خاص نشانے پر رہے ہیں، انہی پر عزم نوجوانوں میں ایک نوجوان چراغ جان تھے، ہمارا چراغ جان بھی ایک طالب علم تھا اور اسی شعبے سے منسلک رہ کر وہ بلوچ قوم کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا عزم کیئے ہوئے تھا تاکہ بلوچ قوم علم و شعور کی طاقت سے لیس ہو کر اپنے جائز حقوق کے لیئے، شعوری بنیادوں پر جدوجہد کریں۔
چراغ جان نے ایک ایسے پسماندہ سماج میں جنم لیا جہاں کہ امیر باشندے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور تھے، جہاں بلوچ قوم کو زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم کردیا گیا تھا۔ جہاں تعلیم اور صحت کے ادارے بالکل موجود نہ تھےاور جہاں ریاست پاکستان اپنے قبضے کو طول دینے کے لیئے بلوچ قوم پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی تھی، چراغ جان ایک ایسے سماج میں پلے بڑھے جو اندھے اور گونگے لوگوں کا مسکن تھا لیکن چراغ نے جس بے بسی کو اپنے نزدیک سے دیکھا اور اس بےبسی کو محسوس بھی کیا اور اسی احساس کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس نے فیصلہ کیا کہ اپنی تمام تر صلاحیت اور قابلیت کو قومی بھلائی اور قومی فلاح کے لیئے خرچ کرے گا اور اسی درد کو لیکر وہ میدان عمل میں کود پڑا۔
نصیر احمد سے وہ چراغ بن گیا، جس نے اپنی روشنی سے اپنے اندھیر نگری کو منور کرنے کی جدوجہد شروع کی، چراغ بلوچستان کے ان زندہ دل نوجوانوں میں شامل ہیں، جنہوں نے بقائے انسانی کے لئے سنہرے باب نقوش کیئے، چراغ جان نے اپنی زندگی کا مقصد اپنی قوم کی بقا اور تشخص کو بچانے کے لیئے وقف کررکھی تھی، وہ اپنی روشنی سے علم کی شمع روشن کرتا رہا تاکہ اس علم سے مستفید ہو کر وہ اپنے قوم کو مزید روشنی کی امید دلاسکے، وہ ہر وقت اپنے دوستوں اور اپنے جونئیر ساتھیوں کو غلامی اور بدحالی کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے کی ترغیب دیتا رہا، اپنے قوم کو بیدار کرنے اور اپنے قومی حقوق کے لئے سیاسی جدوجہد کرنے کا درس دیتا رہا، چراغ جان کا مقصد اپنے نوجوان نسلوں کو شعوری اور نظریاتی حوالے سے تربیت کرکے انہیں اپنے غلامی کا احساس دلانا اور غلامی جیسے بیماریوں کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا اور آزادی جیسی عظیم نعمت کو اپنے اندر جذب کرکے ان پسماندہ ذہنوں کو ترقی پسند ذہنوں میں تبدیل کرنا تھا۔
چراغ کی وہ بات میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا جو انہوں نےکہا تھا کہ ہمارے نوجوانوں میں شعور ہے، وہ ہیرے ہیں بس انہیں تراشنے کی ضرورت ہے، انہیں تربیت کی ضرورت ہے، انہیں خوف کے اس فضاسے نکال کر آزادی کی شاہراہوں پر لاکھڑا کرنا ہے اور اس کام کے لیئے بہت وقت درکار ہے۔ چراغ کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ یہ بہت بڑا کٹھن اور مشکل کام ھے مگر چراغ یہ بھی جانتا تھا کہ دنیا میں ایسا کوئی کام نہیں جو ناممکن ہو، وہ اسی راہ کا مسافر تھا۔
چراغ اپنے قوم کی بنیادی تعلیمات کے ساتھ ساتھ انکی ذہنی اور فکری تربیت بھی کرتا رہا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ نصیر احمد ایک چراغ تھا وہ چراغ جو سیاہ اور خوفناک راتوں میں امید کا دیا جلاتا تھا تو یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا، اسی امید کو لیکر چراغ پورے بلوچستان میں تنظیمی پروگراموں کو آگے بڑھاتا رہا، ہمارا چراغ یہ بھی جانتا تھا کہ اسکا انجام کیا ھوگا، مگر وہ ڈر و خوف کی دنیا کو خیر باد کہہ کر، علم کے دیئے جلاتا رہا، وہ زاہد جان، ذاکر جان اور کمبر جان کی طرح مضبوط عزائم کا مالک تھا، اس پر کٹھن سفر میں چراغ ہمیشہ اپنی روشنی بکھیر کر اپنے دوستوں کو راہ دکھاتا رہا، اپنے جونئیر دوستوں کی راہنمائی کرتا رہا اور انہیں ہمت اور حوصلہ دیتا رہا تاکہ سنگت ڈر اور خوف کو اپنے دل سے نکال کر ایک آزاد اور روشن مستقبل کے لیئے جدوجہد کریں۔
چراغ کے اس مضبوط عزم و حوصلے نے ریاست کو بوکھلاٹ میں مبتلا کر رکھا تھا اور اپنے خوف کے اثر کو زائل کرنے کے لیئے ریاست اس نوجوان اور بی ایس او کے سینکڑوں نوجوانوں کو اپنے راستے سے ہٹانے کی پالیسیوں پر عمل پیرا تھا، مگر یہ حقیقت ہے کہ خطروں کے کھلاڑی ایسے بزدلانہ اقدامات سے کہاں گھبرانے والے تھے، وہ ان ریاستی پالیسیوں کے باوجود اپنے راہ پر چل پڑا چراغ اس بات سے بھی بخوبی واقف تھا کہ ایک دن دشمن میری روشنی کو مدھم کرنے کی کوشش ضرور کرے گا، مگرچراغ یہ بھی اچھی طرح سمجھ چکا تھا کہ میرے بعد میرے دوست اس چراغ کی روشنی کو اور پھیلائیں گے، میرے بعد میرے ساتھی چراغ بن کر اپنے دوستوں کی بھرپور رہنمائی کرینگے اور ہمارا یہی عمل، ہمیں ایک دن ضرور اپنے منزل مقصود تک پہنچائے گا۔
ریاست اپنی شاطرانہ اور بزدلانہ پالیسیوں کے ذریعے سینکڑوں بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کرچکی ہے، ہزاروں گھروں کے چراغ بجھا چکی ہے، کئی چراغ ریاست کے زندانوں میں انسانیت سوز اذیتیں برداشت کررہے ہیں، مگر ان کا مقصد اور جذبہ شعور ہمہ وقت ہماری رہنمائی کر رہی ہے اور جب تک یہ چراغ جلتا رہے گا ہماری منزل قریب سے قریب تر ہوتی جائیگی اور انکا فلسفہ جاری وساری رہے گا۔
ریاست ہمارے چراغ سے خوفزدہ تھا اور اسکے خوف کا یہ عالم تھا کہ نہتے چراغ اور اسکے ساتھیوں کو پکڑنے کے لیئے
40 گاڑیوں اور سینکڑوں اہلکاروں پر مشتمل دستوں نے پورے یونیورسٹی روڈ کو بند کرکے چراغ اور اسکے دوستوں کو 15نومبر 2017 کے رات کی تاریکی میں جبری طور پر لاپتہ کردیا، ہمارا چراغ اب زندان کے اندھیری کھوٹھڑیوں میں اپنا دیا جلانے کی کوشش کررہا ہے اور یہ ناکام ریاست یہ سمجھ رہا ہے کہ چراغ اور اسکے ساتھیوں کو لاپتہ کرنے سے یہ علم کا سمندر رک جائے گا، یہ روشنیوں کا سفر ختم ہو جائے گا، تو یہ ریاست بھول چکی ہے کہ روشنیوں کے مسافروں نے اپنے سماج میں جو روشنی پھیلائی ہے، اس روشنی کو بجھانا ایک ناممکن بات ہوگی۔ اب یہ سفر تھمنے کا نام نہیں لیگا۔ چلتا رہیگا اپنے منزلِ مقصود کی جانب ایک آزاد روشن مسقبل کیجانب۔
چراغ کی روشنی اب پہلے سے بھی زیادہ منور اور تیز ہوگئی ہے، جو اس راہ کے مسافروں کو صاف نظر آرہی ہے، اور ہم اپنے چراغ سے وعدہ کرتے ہیں کہ اس شمع کو بجھنے نہیں دینگے اور اس روشنی کو مزید بڑھانے کے لیئے اپنے جدوجہد کو اور تیز کریں گے۔