دلجان : ایک استاد ،شفیق باپ اور مہربان بھائی __ سلال بلوچ

561

دلجان
( ایک  استاد ،شفیق باپ اور مہربان بھائی)

تحریر : سلال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

کہاں سے شروع کروں، کس خصوصیت کی تعریف کروں، کیا خوبی بیان کروں؟ اس عظیم ہستی کی جس کی قربت میں میرے دن رات گزرے۔ جن کی عظمت میں میری انقلابی تربیت ہوئی، جس کے آغوش میں سر رکھ کے دلوش و امیر کی خوشبو محسوس ہوئی، جن کی قربت سے روح کو ٹھنڈک محسوس ہوئی، خود کو خوش نصیب لکھنے میں آج کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی کہ میں نے ایک باہمت، بہادر، مہربان، قدر دان، بلند و بالا سوچ، باکردار سرمچار کی تربیت میں اپنے انقلابی قدموں کا استعمال شروع کیا۔

یہ کہانی ہے ایک مفکر، دانشور، مہربان انقلابی شخص کی، جس نے ہمارے وطن کے ہر فرزند کے بقاء کے لیے اپنی جان قربان کر کے وطن کے ہر فرزند خاص کر زہری قوم کے ہر ورنا کو پیغام دیا کہ اپنی کل کی روشنی کے لیے آج اندھیروں کو قبول کرکے جہد آزادی میں اپنا کردار ادا کرکے امتیاز، امیر، مجید و حئی بننے کا ثبوت دیں، بلکہ ہر پیغام میں ہر ورنا کے ساتھ بیٹھ کے سنگت دلجان یہی بات کرتا رہتا اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرکے آگے بڑھ رہا تھا۔

لاغر بدن، گھنے سیاہ بال، سبز رنگ چہرہ، آنکھوں میں امید لیے شہید دلجان زہری قوم کے لیے زہری کے ہر ورنا کے لیے امتیاز کا پیغام پہنچانے بولان و شور و ملغوے کے پہاڑوں کا سینا چیرتے ہوئے اپنی قومی ذمہ داری کو لے کر پہنچ چکا تھا، جن کی قربت حاصل کرنے کے لیے لوگ ترس رہے تھے، وہ ہمارا حصہ بننے آیا تھا، ملاقات کے لیے مجھے مدعو کیا جب میں پہنچا تو سنگت کافی خوار نظر آرہا تھا، میلے پرانے پھٹے ہوئے کپڑے، پھٹا ہوا جوتا اور پرانی کیپ پہن کر چہرے پہ مسکراہٹ و خوشی لیے مجھ سے گلے ملا سینے سے لگایا تو کہنے لگے آج کئی برسوں بعد اپنے بچپن کے ڈغار پر پہنچ کر سکون ملا ہے اور بہت سی امیدیں لے کر آپ لوگوں کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں میرے پوچھنے پر کہ “سنگت آپ ابھی پہنچے ہو کیا؟” تو سنگت کہنے لگے کہ “سنگت میں تو تین دن پہلے پہنچا تھا، بس ٹھکانہ نہ ہونے کی بنا پر میں تین دن تک سبزیوں کے پالیز میں رہ کر آج مشکل سے آپ تک پہنچا ہوں۔”

سنگت کی یہ حالت دیکھ کر میرے چہرے پر افسردگی چھا گئی اور دل ہی دل میں سوچنے لگا آج امتیاز کا جو پیغام ہمارے کمزور کندھوں پر رکھنے آیا ہے، کتنی تکلیفیں اور رکاوٹیں سہہ کر، کیا ہم اس ذمہ داری کو اپنے کندھوں پر اٹھا سکیں گے یا نہیں؟ کافی کٹھن ذمہ داری تھی سنگت دلوش کی قربانی، امیر جان کی انقلابی سوچ، مجید کی کم عمری اور حئی کی بہادری کو شہید دلجان کی امیدوں پر کیا ہم اتریں گے؟ میں انہی خیالوں میں گم تھا کہ سنگت پوچھنے لگے کہ ہاں سنگت کہاں کھو گئے، میں نے کہا کہ بس یونہی۔

وہ تو تھا ہی اتنا مہربان کہ میرے دل کی بات کو سمجھ گئے اور اپنا لیکچر شروع کرتے ہوئے کہنے لگے سنگت میری مشکلیں، میری تھکاوٹ، میری رکاوٹیں، شہید دلوش، مجید، امیر، حئی کی قربانی سے زیادہ نہیں ہے۔ ان کی قربانی نے اتنے حوصلے بخشے ہیں کہ آج میں آپ تک پہنچا ہوں، میں ہر انقلابی شہید کا پیغام پہنچانے آیا ہوں، بہت سی توقعات رکھ کے آج میں اس سرزمین پر پہنچا ہوں_ آپ جیسے ہر انقلابی سنگت کی ذمہ داری ہے کہ اس پیغام کو ہر بلوچ نوجوانوں تک پہنچائیں اور اس راستے کو منزل تک پہنچانے میں میری اور وطن کے ہر سرمچار کی مدد کریں۔

میں میٹھی باتیں سننے میں مگن رہ کر سنگت کے چہرے کو گھورتا رہا، سنگت لیکچر جاری رکھے ہوئے تھا، دل نہیں چاہ رہا تھا کہ لیکچر ختم ہو، باتیں ختم ہوں، کیونکہ جتنا میں اس عظیم استاد سے سیکھ رہا تھا، سمجھ رہا تھا آج سے پہلے ایسا استاد زندگی میں ملا ہی نہیں تھا۔ محسوس ہوتا تھا کہ فرشتہ ہوسکتا ہے اور کچھ نہیں۔ باتوں کی مٹھاس، زبان کی لذت، چہرے کی چمک، بالوں کا برابر گھنا خوبصورت لگنا، آنکھیں چمکتے ستارے جیسے، کالے خشک ہونٹوں نے میرا دل ہی جیت لیا تھا۔ میں سمجھنے لگا کہ اس عظیم استاد کی قربت میں انقلابی بننا کوئی مشکل کام ہی نہیں، جس کے اندر مخلصی، ہمت، بہادری، جواں مردی، وطن کے لئے دل میں درد رکھنے والا، محبت دل میں لے کے ہر سنگت سے ملنے کی لگن جیسے صفت و خوبیاں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہوں، ایسے استاد کی قربت میں صرف جان لٹانے والے پیدا ہوسکتے ہیں، وطن کے لئے جان دینے والے پیدا ہو سکتے ہیں۔

کچھ دن گزر گئے سنگت سے ملنے کی لگن و شوق پیدا ہوئی، میٹھی باتیں سننے کے لیے کان ترس رہے تھے، سنگت دلجان سے نزدیک بیٹھ کر لیکچر سننے کی لگن و خواہش پیدا ہوئی تو سنگت سے رابطے کے بعد پتہ چلا کہ اس بار سنگت دور ہے، تو ملنے کے لیے آنکھیں ترسنے لگیں، دلجان ( دل و جان) بن گیا تھا ہر خیال میں بس وہی رہتا تھا، انقلابی تربیت کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی لیکن دور رہ کر رابطہ جب ہوتا تو سنگت کی شخصیت خیالوں میں جھوم رہی ہوئی، دور رہ کر بھی سنگت کی شخصیت کو سامنے رکھ کر سیکھنے کا جذبہ پیدا ہوتا جا رہا تھا۔

کچھ ہی وقت دور رہنے کے بعد پھر سے مادرِ وطن کے شہیدوں سے کیے ہوئے وعدے کو پورا کرنے کے لیے اس بار شاید سب کو چھوڑنے کے لیے آیا ہوا تھا۔ سنگت نے پھر بلایا تو سنگت کو سامنے پاتے ہی میں جھوم اٹھا۔ جیسے بارش سے زمین سیرِ آب ہو گیا ہو، لیکچر کا سلسلہ پھر سے شروع ہو گیا، سنگت کی مضبوط سوچ و فکر، وطن کے لیے دل میں درد، اپنی جان کی پرواہ نہ کرنے کی ہمت، بلند و بالا کردار کے مالک ہونے کا ثبوت آنکھوں سے چھلک رہا تھا۔

ذمہ داریاں سونپتے گئے، خوشیاں دیتے گئے، محبت بانٹے گئے، درد سمیٹتے گئے، خوشیوں کا وجہ بنتے گئے، اپنی سنہری منزل کی طرف بڑھے جارہے تھے، کافی ملاقاتیں ہوئی ہر ملاقات میں ہنسی مذاق خوشی سے ہر کام کی ترتیب سمجھانا، مسکراتے ہوئے ہر مشکل میں حوصلہ دینا، ہر کارنامے پر حوصلہ افزائی کرنا، ہر مشکل دور کی جواں مردی سے سامنا کرنے کی تاکید کرتے ہوئے دلوش کی ذمہ داری کو پورا کرکے دشمن سے بے خوف ہو کر قدم آگے بڑھاتے جا رہا تھا۔

شہید دلجان ہر سنگت کی ضرورت، خواہش اور خود سے کیے گئے امیدوں کو ہر سنگت کے دل کو دیکھ کے پہچان جاتا تھا اور سنگت کے زبان پر آنے سے پہلے وہ امید، وہ ضرورت، وہ خواہش پوری کرکے ہر سنگت کے دل و جگر کا ٹکڑا بن چکا تھا، آخر وہ ایک شفیق باپ اور مہربان بھائی جو تھے۔ جو آنکھوں سے ضرورتیں پڑھ کر پورا کرتا تھا، دل سے خواہشات کا احترام کرکے، ان کی ادائیگی کے لیے کوشش کرکے ان کو بھی پورا کرتا تھا۔

سردی کا موسم تھا، میں گھر سے بغیر کوئی چیز پہنے نکلا تھا، تو سنگت نے محبت بھری آواز کے ساتھ کال کرکے مجھ سے ملنے کی خواہش کی، تو میں خوشی سے اپنی قدموں کا رخ سنگت کی طرف کرکے جب اس کے پاس پہنچا تو سنگت نے درد بھرے لہجے میں حیرانگی سے پوچھا کہ آج کچھ پہنا نہیں ہے، شاید آپ کے پاس کوٹ نہیں ہے، تو اپنے جسم سے کوٹ اتار کر دینے کو کہا لیکن انکار کرتے ہوئے میں نے کہا کہ سنگت آپ سے ملنے کی جلدی اور جستجو نے کچھ پہننے نہیں دیا لیکن آپ جیسے مہربان بھائی، جو ہوں تو ہم کو کس چیز کی کمی ہو سکتی ہے۔

میں سمجھ چکا تھا کہ ہر سنگت کی ضرورت، اس کو ایک شفیق باپ کی طرح ستا رہا تھا، یہ جان کر بھی سب کچھ ہم کو دستیاب ہے لیکن ہر سنگت کا غم اپنے سینے میں رکھ کر ان کی ضرورتوں کو پورا کرنا اپنی بہت بڑی ذمہ داریوں میں سے ایک سمجھتا تھا۔

ہم تو تھے ہی سنگت، جو ہماری ضرورت کا ان کو خیال رہتا لیکن راہ چلتے ہوئے چرواہے کے بچوں کے لیے بھی ان ضروریات کا خیال رکھ کر ایک مہربان بھائی ہونے کے ناطےان کی وہ ضروریات پورا کرنے کو اپنا فرض سمجھتا تھ۔ا، سنگت کی تعریف میں ان کے معیار کے الفاظ ہی نہیں، مجھ جیسے لاعلم کے پاس کہ میں سنگت کی شخصیت میں کس طرح نکھار پیدا کر سکوں؟

سنگت معاف کرنا مجھے تو لکھنے کی ہمت بھی نہیں ہو رہی کہ شاید مچھ سے کوئی کمی نا رہ جائے، کیونکہ سنگت آپ کی شخصیت تو نرالی تھی، الفاظ ہی نہیں کہ میں بیان کر سکوں تیری عظمت و بہادری کو کہ وطن کے لئے کس طرح آپ نے اپنا ہر چیز قربان کرکے اپنا خون بہا کر ہمارے لیے صرف درد چھوڑ کر چلے گئے اور ہمیشہ اپنا راج ہمارے دلوں میں چھوڑ کر ہمیں ادھورا کر گئے۔

سنگت تُو ہر سنگت کا حوصلہ تھا، زہری کا ہر پتھر تیرا شیدائی تھا، آج بادام کے پھول تجھے تلاش کرتے ہوئے مرجھائے نظر آتے ہیں، آج ہر درخت کا ہر پتہ تیری بہادری کے گیت گا رہا ہے، سنگت تُو نے سب کے دل جیت لیے، تُو دلجان تھا توُ دل و جان تھا۔ تو نے قربان ہوکر حوصلہ بخشا، ہمت بخشی اور رکاوٹیں و مشکلات سہنے کی طاقت بخشی، تُو نے امیر و مجید بن کے دکھایا، تُو دلوش بن کے دکھایا، تُو شیرا و حیی بن کے دکھایا، تُو امر ہوگیا تو ثمر دے گیا، تُونے خشک زمین کو اپنے خون سے سیر آب کرلیا، تُو زندہ ہے، ہمارے دل میں ہر خیال میں ہر سوچ و فکر میں تُو سما گیا، تُو دل کو بھا گیا، یہ پیغام دے کر کہ “اب تمھارے حوالے وطن ساتھیو”…!