حب کا ضیاء بولان کا دلجان
تحریر۔ سراج بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ: کالم
حب کے گلیوں میں گونجنے والا نعرہ، ہم کیا چاہتے ہیں؟ آزادی! ہم لیکر رہینگے، آزادی! ہجوم میں کسی دوست کے ساتھ راہ چلتے، میں بھی شامل ہوا تھا۔ بلند آواز میں ہجوم کو سلوگن دیتا ہوا نوجوان جس کی ابھی داڑھی مونچھیں بھی صحیح سے نہیں آئے تھے، ہاتھ میں ایک فائل پکڑے آگے آگے چل رہا تھا۔ جن کے ارد گرد وردی میں ملبوس سرکاری سپاہی ساتھ ساتھ چل رہے تھے، مگر ہجوم میں کسی کو اس بات کی پرواہ تھی ہی نہیں۔
میری نظر خاص کر اس نوجوان پر ٹکی ہوئی تھی، جس کے نعروں کا جواب باقی ہجوم ایک ساتھ دے رہا تھا، وہ کسی گیت کی طرح مسلسل ایک کے بعد ایک نعرہ یاد رکھے ہوئے بولے جا رہا تھا، ہجوم مین روڈ سے ہوتے ہوئے موندرہ چوک پر آکر رک گیا. مجھے لگا اب یہ نوجوان چوک پر چڑھ کر کچھ تصویریں کھنچوا کر کچھ بھاشن دے کر اترے گا کیونکہ ہمارے والد اور بڑے بھائیوں نے یہی بتایا تھا کہ بی ایس او میں شامل اکثر لوگ قوم وطن کا نام استعمال کرکے فوٹو سیشن کروا کے تھوڑا سا نام کما کر کسی سرکاری پارٹی کا حصہ بن جاتے ہیں اور باقی زندگی بھتہ خوری کی بھاگ دوڑ میں گذار دیتے ہیں۔
یہاں مجھے بھی اس نوجوان سے یہی امید تھی، مگر میرے تاثرات غلط ثابت ہوئے، مجھے اس ہجوم میں لیجانے والا سنگت ہجوم سے ہوتے ہوئے اسی نوجوان کے پاس جاکر ٹہر کر اسکئ طرف ہاتھ ملانے کے غرض سے ہاتھ آگے بڑھایا، سامنے نوجوان میرے دوست کو ہاتھ بڑھاتے دیکھ کر، اسکی جانب دیکھ کر جیسے ہی پہچان لیا، خوشی سے مسکرا کر اس سے گلے ملا، پھر مجھ سے تعرف ہوا وہ ہلکا سا مسکان اپنے لبوں پر لاتے ہوئے، مجھ سے رسمی حال حوال کرنے لگا۔
ہم کچھ دیر ساتھ کھڑے رہے، ہجوم ختم ہوا تو یہی نوجوان فائل میں کچھ لکھ کر ایک صفحہ کسی اخبار کے صحافی کو تھمایا، اسکے ساتھ اور بھی سارے نوجوان اکھٹا ہوکر نکل پڑے، ہم اپنے کام سے جا رہے تھے، تو ان سے رخصت ہوکر اپنے کام کو نکل پڑے، میرے ہمراہ نے مجھے بتایا کہ یہ ضیاء زہری ہیں، اس سے کافی کچھ سیکھا ہے، بہت ہنر مند دوست ہے۔ مگر مجھے کوئی خاص دلچسپی نہ رہی کیونکہ میں نا اس سے پہلے اس نوجوان سے ملا تھا نا اسے جانتا تھا، میرے لئے ضیاء میرے دوست کا دوست ہی رہ جاتا اگر ہم دوبارہ نہ ملتے۔
مگر قسمت مہربان ہی تھا کہ ضیاء جیسے عظیم سنگت استاد سے ملاقات کرنے اسکے محفل میں بیٹھنے کا موقع تب ملا جب اسکا ایک دکان ہوا کرتا تھا، میں میرے دوست کے ساتھ اسکے یہاں جایا کرتا تھا، ہمیشہ ضیاء کے محفلوں میں بات یہاں وہاں سے گھوم کر سیاست پر آ جایا کرتا تھا، پھر گرم چائے اور ضیاء کے رہنمایانہ الفاظ مغرب ہونے تلک ہمیں جکڑے رکھتے. ضیاء اسکے بعد بھی حب کی گلیوں سڑکوں پر آزادی کے سلوگن کو لیکر چلتا رہا، کبھی کہیں سے کتاب ہاتھ لگ جاتا تو دوستوں کو پہنچا دیتا تھا۔
بقول میرے دوست کے بی ایل اے کی طرف سے لگ بھگ 2001 میں شایع ہونے والی کتاب کو بھی سنگت ضیاء نے اسکے ساتھ رات کے تاریکیوں میں ہر سنگت کے گھر اسے بنا بتائے پہنچا تا رہا، ضیاء گمنام ہو کر نہ جانے کیا کچھ کر رہا تھا، کبھی اندازہ نہیں ہوا ضیاء کبھی ہجوم میں تو کبھی گلیوں کے دیواروں پر یا کبھی نقاب میں دشمن کے خلاف اپنی قوم کو آگاہی بخشتا ہوا دیوانہ وار چلا جا رہا تھا. اسے روکنے کے لیے کوئی نہ تھا، گھر بار جیل زندان موت بھی اسے پیچھے نہ ہٹا سکا وہ چلتا ہی رہا۔
ہم جیسے کمزور ساتھیوں کو کاندھا دے دے کر جب اسے محسوس ہوتا کے انکے قدم یہاں سے آگے نہیں بڑھ سکتے تو اور دوست بنا کر ایک قدم آگے انکے ساتھ چلتا تھا. ضیاء ایسا شخصیت تھا، جس کیلئے دوست اور ہم خیال بنانا کوئی مشکل کام نہیں تھا، وہ ہر اس شخص کو کاندھا دے کر اسکے کھڑے جگہ سے ایک قدم آگے بڑھانا چاہتا تھا، جو جہاں تک چل پاتا، ضیاء اسکے ساتھ اس لمحے تک ہر کام وطن کے خاطر کرنے کو تیار رہتا۔
پھر یوں ہوا کہ ضیاء حب سے کوئٹہ چلا گیا، اس نے وہاں یونیورسٹی میں باقی دوستوں کے ساتھ مل کر اپنے کام کو جاری رکھا، وہ اکثر کہتا تھا اپنے دوستوں کو اکھٹا کرو، ان سے رابطے میں رہو اور کام کرتے رہو، یہ پجار و محی دین والے نوجوانوں کو روزگار کے چکر میں مقصد سے ہٹا رہے ہیں. بی ایس او کے حوالے سے وہ ہمیں سنگت عابد شاہین و کامریڈ قیوم و ذاکر جان کا نمبر دے کر کہتا ان سنگتوں سے رابطے میں رہو، کوئی بھی مشکل ہو ان سے مشورہ کرتے رہو۔
پھر ضیاء سے دو مارچ کو ملاقات ہوا بی ایس او کے حمایت سرمچاران ریلی میں، مجھے اور کچھ خاص یاد نہیں مگر اسی سنگت ضیاء کے بدولت میں وہاں ایک اور نڈر بہادر سرمچار سے ملا تھا، جسے زندگی میں پھر کبھی دیکھنے کا موقع نہ ملا اس ریلی میں سنگت ضیاء کے ساتھ اسکا کزن سنگت حئی بلوچ بھی تھا، رات ہم کسی دوست کے ساتھ ٹہر کر صبح پھر حب چوکی کی طرف سفر شروع کردیا، اسکے بعد ضیاء جب کبھی حب آتا تو وہاں بی ایس او کے سنگتوں سے ضرور ملتا، ضیاء اپنے کام میں مگن تھا، وہ نئے نئے نوجوان تلاش کرکے، حب میں بی ایس او آزاد کو منظم کرنے میں لگا ہوا تھا، مجھے یاد ہے 2009 سے 2010 تک بی ایس او میں جو ابھار حب میں آیا اسکے پیچھے ضیاء جیسے سنگت کا ہاتھ تھا، اس نے ایک ساتھ بچاس سے زائد نوجوان اکھٹا کرکے انہیں بی ایس او آزاد میں شمولیت کروایا تھا، اس وقت کے دوستوں کو اچھی طرح یاد ہوگا کے باقی تنظیموں کے ہر کوشش کو کس طرح ضیاء ناکام بناتا، ہوا نوجوانوں کو سمجھاتا رہا کے ہمارا تنظیم، ہمارا کام یہی ہے، اسکے سوا اور کسی تنظیم سے تعلق نہیں۔
پھر زندگی کے بھاگ دوڑ میں ہم مصروف ہوگئے لیکن ضیاء اپنے کام کو جاری رکھتے ہوئے ہر سمت روشنی بخشتا جارہا تھا، اس بات سے بےخبر، ہم اپنے کاموں میں مصروف رہے. ضیاء سے بات کرنے کا خیال تب آیا جب اسکے ایک کزن مجید بلوچ کو ریاست نے عقوبت خانوں میں بند کرنے کے بعد شہید کر دیا تھا. مگر اسی دن سے سنگت ضیاء کا مبائل جو بند ملا پھر کبھی بات نہ ہوا، کہیں کسی سے سننے کو ملا کہ ضیاء زہری میں ہے، تو کسی سے سننے کو ملا وہ سردار کے ساتھ ہے، پر ضیاء کہاں تھا کسی کو مکمل خبر نہ ہوا، ضیاء نہ اپنے ذات میں تھا، ضیاء نہ کسی کے دسترس میں تھا، وہ آزاد پنچھی کی طرح بلند اڑان بھر کر پہاڑوں پر بسیرہ کر چکا تھا، وہ بولان کے چوٹیوں کو مورچہ بنا کر وطن کے عشق میں لوریاں سن کر اپنے سفر پر گامزن تھا، ضیاء مورچہ زن دشمن کے طاق میں تھا۔
پھر ضیاء وہاں بھی تھا، پارود میں اپنے باقی ساتھیوں کے ساتھ قلات کے یخ بستہ پہاڑوں کو اپنا مسکن بنانے والا ضیاء بلوچستان کے ہر گوشے میں رہا، دلجان بن کر اپنے کام مقصد کو نام بخشنے کی خاطر اپنے باقی ساتھیوں کے طرح ہر وقت بس سفر آجوئی میں چلتا رہا۔
ضیا پھر زہری میں تھا، وہی بچپن کا سوچ ساتھیوں کو جمع کرنے کا غرض، ضیاء حب کے سیاست میں ایک آہن کارکن تھا، مگر بولان کے سفر و مخلصی نے اسے پگھلہ کر سونا بنایا تھا، وہ ضیاء جو کئی سال پہلے اس ہنر سے واقف تھا کے گفتگو کو کہاں سے کہاں لیکر جانا ہے، وہ ضیاء اب کے برس کیا بنا ہوگا؟ ایک شخص جو اپنے سفر کا پہلا قدم جس سمت کو اٹھاتا ہے، وہ کئی سال، کتنے خیالات سے، کتنے الفاظ سے، کتنے مشکلات، سے کتنے سختیوں سے لڑ کر پھر بھی اسی سمت پر قائم رہتا ہو یقیناً غیرمعمولی ہے۔ بہت کم ملتے ہیں امیر الملک ضیا و ذاکر جیسے سنگت۔
ضیاء نے اس خیال سے جہاں بھی قدم رکھا، اس نے اپنے دوستوں کو ہمیشہ انکے موجودہ جگہ سے ایک قدم آگے بڑھنے میں مدد کیا، زہری میں اپنے سنگتوں کو تربیت کرتے کرتے وہ اس قدر تیار کر چکا ہوگا، تب ہی وہ انکو ایک اور قدم آگے بڑھنے کا درس دیتے ہوئے انکو سکھا کر چلا گیا، کے یہ سانسیں، یہ زندگی، یہ موت وطن کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ ہمارا چاہ، ہمارا مقصد، ان سب سے بڑھ کر ہیں. وہ گولی تو بس دشمن کو ہر بار کی طرح ایک بار پھر ناکام بنانے کے لیے چلا تھا، ضیاء تو اس زندگی کو اس وقت خیر آباد کہہ چکا تھا، جب اس نے اپنے قوم وطن کی بزگی کو دیکھ کر، اسے محسوس کر کے اس راہ پر نکل پڑا تھا. کہی درد چھپا کر ضیاء بچپن کے مسکراہٹ کی طرح ہر تصویر میں مسکرا کر ملتا ہے، سوچتا ہوں کہ کوئی پاگل ہی ہوگا جو اپنے دوستوں کو کاندھا دیکر دشمن کے گرفت میں بار بار آکر اپنے آسودہ گھر بار بچوں کو چھوڑ کر پہاڑوں کو اپنا مسکن بنا کر پتھروں پر سر رکھ کر، پیٹ پر پانی ڈھو کر، میدانوں پر راتیں گزار کر پھر بھی ہنس رہا ہو۔
پھر خیال آتا ہے واقعی کوئی پاگل، کوئی دیوانہ ہی اس قدر وطن کی محبت میں خود سے بیگانہ ہوکر مسکراتا ہوا چلا جاتا ہے، ضیاء میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم وہ جو حب سے آگے آپ کے ساتھ چل نہیں پائے، دراصل ہم اسی وقت وہیں مر چکے تھے، کسی گمنام جگہ پر ہمارے ضمیر کو دفنایا گیا تھا، مگر آپ ضمیر زادے نکلے، اپنے آخری گولی تک اور اسکے بعد تک من چاہا اور کامیاب زندگی گذار کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دلوں پر راج کرتے رہو گے. امید رکھتے ہیں آپ کے بنائے سنگت اس مقصد کو اپنے کاندھوں پر اٹھائے منزل کا سفر یونہی جاری رکھے رہینگے۔