جمیل بلوچ اور ساتھیوں کو خراج تحسین، دشمن کے خلاف مزاحمت جاری رہے گا : بی آ ر اے

644

بلوچ رپپبلکن آرمی کے ترجمان سرباز بلوچ نے میڈیا کو جاری بیان میں کہا ہے کہ گذشتہ روز پسنی میں شہید ہونے والے شہید سرمچاروں کو عظیم و شاندار شہادت پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں سرباز بلوچ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ۹ مارچ کو بی آر اے کا کمانڈر جمیل عرف کیا بلوچ اپنے دیگر تین ساتھیوں سفر عرف ساوڑ، منیر بلوچ عرف یونس، اور ریس عرف حکیم کے ہمراہ تنظیمی کام کے سلسلے ساحلی شہر پسنی کی جانب جارہے تھے راستے میں شادی کور ڈیم کے قریب ان کا قبضہ گیر فوج سے ٹکراو ہوا جہاں دشمن پہلے سےمورچہ زن تھا شہید کمانڈر جمیل نے اپنے ساتھیوں سمیت چالیس منٹ تک قبضہ گیر ریاستی افواج کا جواںمردی سے مقابلہ کیا اور سرتسلیم خم ہونے کے بجائے ڈاڈائے قوم شہید نواب اکبر خان بگٹی اور ہزاروں شہدا کی روایت برقرار رکھتے ہوئے بہادری سے دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کی

۔سرمچاروں اور قابض افواج کے درمیان جھڑپ میں فورسز کے کئی اہلکار ہلاک ہوگئے، شہید جمیل عرف کییا 2013 سےقومی تحریکِ آزادی کی مسلع جدوجہد سے وابستہ ہوگئے اور دوسال قبل انہوں نے بی آراے میں شمولیت اختیار کی ۔ محاز پر ان کی مسلح جنگی صلاحیتیوں کی وجہ سے تنظیم نے انھیں ہوشاپ سمیت ساحلی علاقوں میں بطور ریجنل کمانڈ نامزد کیا تب سے شہادت تک شہید جمیل بلوچ کے کمانڈ میں دشمن کے خلاف کئی کامیاب کاروئیاں کی گئی شہید جمیل کے ہمراہ جام شہادت نوش کرنے والے فرزندان سفر عرف ساوڑ، منیر بلوچ عرف یونس، اور ریس عرف حکیم گزشتہ کی سال سے بی آر اے کے پلیٹ فارم سے مادر وطن کی آزادی کیلئے خدمات سرانجام دے رہے تھے

‎ مادر وطن بلوچستان کے بہادر فرزندوں نے اس سے پہلے بھی تنظیم کے پلیٹ فارم سے وطن کیلئےاجتماعی قربانی کی مثالیں قائم کی ہیں 2010 کو تربت میں شہید مرادجان گچکی، شہید زبیر گچکی، شہید حمل بلوچ، شہد ماجد بلوچ اور شہید حاصل بلوچ نے فورسز کا 24 گھنٹے جوان مردی سے مقابلہ کرتے ہوئے قبضہ گیر دشمن کے کئی اہلکار ہلاک کیئے اور خود شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوکر نوجوان نسل کیلئے آیڈیل بن گئے۔ اجتماعی قربانیوں کی تاریخ کو دوہراتے ہوئے 2014 میں تربت میں آبسر کے مقام پر شہید کمانڈر عقیل جان، شہید جہانزیب، شہید نوروز، شہید موسی، اور شہید جنید جان نے دشمن کے ساتھ دوبدو جنگ میں جواںمردی سے قبضہ گیر افواج کا مقابلہ کرتے ہوئے شہادت نوش کرکے ثابت کردیا کہ سرزمین کی آزادی کیلئے بلوچ فرزند کسی بھی قربانی کو تیار ہیں اجتماعی قربانیوں کی طویل فہرست میں شہدائے پسنی نے ایک اور باب کا اضافہ کردیا – ریاست جمیل جیسے نوجوانوں کو شہید کرکے اس خوش فہمی نہ رہے کہ وہ قبصہ گیریت کے خلاف مزاحمت کو کمزور کرسکے گا۔

بلوچ ریپبلکن آرمی ایک بار پھر سے اس عزم کا اظہار کرتی ہے کہ قبضہ گیر پنجابی فوج کے خلاف یہ جنگ سرزمین پر آخری فوجی کی موجودگی تک جاری رہیگا۔