جستجو ـــــ جلال بلوچ

400

جستجو

تحریر: جلال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ ـ کالم

اپنی بے جان وجود کو اپنے بے منزل قدموں کی روانی کے حوالے کر کے، دنیا و عالم سے خبردار، مگر بے غم آج کسی جگہ سے گزر رہاتھا، تو اچانک کانوں میں رونے اور چلانے کی آوازیں آنے لگی، تو کسی انجان شخص سے پتہ چلا کہ یہاں فوتگی ہوئی ہے.

کچھ یادوں میں گم، مَیں یہ بھول گیا تھا کہ میں کہاں جارہا ہوں کیوں کہ میں ایسے سوچ میں پڑ گیا، جو میرے خیال سے ہر احساس اور شعور رکھنے والے کے دماغ کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ کچھ ایسے دوست میرے آنکھوں کے سامنے آئے جو راہِ حق یعنی (آزادی) کی جنگ میں شھید ہوئے ہیں اور کچھ ایسے دوست جو سیاسی پلیٹ فارم سے جہد آزادی کو آگے بڑھانے میں پیش پیش تھے اور آج ہمارے ساتھ نہیں۔ کچھ پتہ نہیں زنده ہیں یا شہید کردیے گئے ہیں۔

جینا مرنا تو انسانی فطرت کا حصہ ہیں، یعنی جو زنده ہوتا ہے اسے مرنا بھی ہے، یہ ایک خدائی نظام ہے، ہم اسے جُھٹلا نہیں سکتے، مگر افسوس اس بات کی ہے،اس شخص کے بارے میں، میں اچھی طرح جانتا ہوں، کون ہے، کیسا ہے اور اپنے زندگی میں کس طرح جیا ہے. یہ وہ شخص تھا جسے زندگی کے کسی بھی کام سے کام نہیں، بس دن رات جُوا کھیلنے، چرس،شراب پینے سے فرصت نہیں ملتا تھا. آج جب وه زندگی کی بازی ہار گیا ہے، تو اُس کی فیملی والے اور کچھ جُواری دوست اس قدر غمزده ہوکر رو رہے ہیں، جیسے انہوں نے اپنے ذہن میں طے کر دیا ہے کہ کسی کو مرنا نہیں۔ نہ جانے کس غلط فہمی میں گم ہیں شاید ہی کوئی انکو سمجھا سکے۔

جو پیارے راہِ حق آزادی میں شھید ہوئے ہیں، انکی زندگیاں بلوچ قومی بقاء کیلئے قربان ہوئے ہیں۔ ہمیں انکے بارے میں سوچنے تک کی فرصت نہیں ملتا جنہوں نے اپنا آج ہمارے کل کیلئے خوشی خوشی قربان کرنے میں کوئی کثر باقی نہیں چھوڑا ہے.

کیا ہم سونے سے پہلے انکے بارے میں سوچتے ہیں ؟
کیا ہمیں اُنکے خاندان والوں کے بارے میں پتا ہے؟
کہ کیا حال ہے کس طرح زندگی گزار رہے ہیں؟

نہیں ایسا ہم کیوں سوچیں؟ کس لیے سوچیں؟ غلام جو بھی کرتا ہے خود کیلئے کرتا ہے، دوسروں کے غموں سے غافل رہتا ہے۔ کیوں کہ وه ایک جانور کی طرح ہوتا ہے، جو اپنا درد خود محسوس کرتا ہے دوسروں کا نہیں۔ اسی طرح ہزاروں گھر، میرے پیارے بلوچستان میں جن کے لختے جگر انکے آنکھوں کے سامنے سے اُٹھا کر شھید کر دیے گیے ہیں یا پھر لاپتۂ ہوکر کئی سالوں سے اپنے پیاروں کیلئے رنج و غم روز برپا کر دیتے ہیں۔

یہ تو ایک ناکارہ انسان تھا، اس کیلئے اتنا رو رہے ہیں، چلانے کی آوازیں، آپ اور میں با آسانی اپنے کانوں سے سُن رہے ہیں، کیا ہمیں پتہ ہے کہ جس کا بیٹا لختِ جگر، کسی کا بھائی، کسی کا شوہر، یا کسی کے عزیز،پیارے شھید کردیے گئے ہیں انکا حال کیا ہوگا؟

چلیں ان عام لوگوں کے رونے اور چلانے کی آواز تو میں اور آپ اپنے انسانی کانوں سے با آسانی سن رہے ہیں۔ کیا ان خاص لوگوں کے سینے میں دبے واہ و زار اور تیز دھڑکنوں کی آواز آپ اور میں محسوس کرتے ہیں؟ جی نہیں، کیونکہ ہم غلامی کی اس انتہاء تک پہچنے ہیں کہ وہاں سے نکلنے کیلئے سالوں کا وقت درکار ہوتا ہے۔ یعنی جب تک ایک ایسا واقع کسی فرد، خاندان ،محلے یا اس شہر میں پیش نہیں آیا ہو ہم اس نوعیت کے واقعات سے غافل رہتے ہیں ۔ اس واقعے کا احساس اگر کسی کو ہے تو کس قدر تکلیف دہ ہے۔ مگر کہاں؟ یہاں تو سب گہری نیند میں گرم بستر کے ساتھ مگن ہوکر سو رئے ہیں۔یہ سب غلامی کے اثرات میں شمار ہوتے ہیں۔

جو دل ہی دل میں رو رہے ہیں، اپنے پیارے لختِ جگروں کے لیے، وہ مجھ جیسے بے شعور انسان کے دماغ کے قید میں کہاں سمو سکتے ہیں۔ جس بہن کا بھائی مہندی کی رات اپنے ہاتھوں میں مہندی لگا کر شادی کی خوشیاں منانے میں مصروف ہوتا ہے اور اچانک مہندی کی رات اس کے گھر میں اور اسکے آنکھوں کے سامنے اسکے بھائی کو گولیاں مار کر شہید کردیا جاتا ہے، تو وہ اپنے بھائی کی خون سے لت پت جسم کو دیکھ کر کیسے پاگل نہیں ہوگی؟

مجھے اب رونا آرہا ہے شاید میرے احساسات جاگ رہے ہیں مگر پھر مجھے خیال آتا ہے کہ میں ایک جانور سے بھی بدتر ہوں کہ اتنا سب ہونے کے باوجود میرا ضمیر سورہا ہے۔

کوئی جی کے مرا
تو کوئی مر کے جیا

بن منزل اک مسافر تھا
نہ جسم نہ روح ہے زندہ
لگے کوئی لاش بن کے مرا

خونخوار طوفانوں میں
مثل ء خاموش سمندر
کوئی لہر بن کے مرا