سامراج نے جب کبھی بھی کسی مظلوم قوم پر قبصہ کیا ہے تو سامراج کی سب سے پہلی کوشش یہی رہی ہے کہ مظلوم قوم کو اُس ُکی ثقافت، زبان، کلچر سے دور رکھے۔
تاریخ ایسی مثالوں سے بڑی پڑی ہے کہ سامراج نے مظلوم قوموں کی شناخت ، ثقافت،زبان، کلچر کو مٹانے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈہ استعمال میں لائے ہیں۔
بیسوی صدی میں دنیا کے قوموں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے کلچر کو ہر طریقہ سے منا سکتے ہیں لیکن مظلوم قوموں کے ہر حق کو سامراج نے اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا یا ان کا حق اُنہیں نہیں دیا۔
اگر ترکی کی مثال لے تو وہاں کردوں کو کردی زبان بولے کردی میں پڑھنے یا تک کلچر استعمال کرنے کی اجازت بھی نہیں ہے ۔
الجزائر میں جب فرانسسیوں نے قبصہ کیا تھا تو وہاں فراسیوں نے سب سے پہلے یہیں ثابت کرانے کی کوشش کی کہ الجزائر کی قوم جاہل ہے اور مختلف طرح کے پروپیگنڈہ کیا کرتے تھے یہ سب کچھ الجزائر قوم کو اُس کی کلچر سے دور کرنے کی کوشش تھی۔
غنی بساؤ کی پارٹی لیڈر املیکار کبیرال رقم تراس ہو کر کہتا ہے ہمارے ملک میں ہمیں ہمارے کلچر ،ثقافت،زبان سے دور کرنے کے لیے سامراج نے مختلف طرح کے ہتگھنڈہ استعمال کیے کبھی لاٹھی کی زور سے کبھی اپنے کلچر کو عظیم ثابت کرنے کوشش کرتے لیکن بعد میں یہیں کلچر ، ثقافت، زبان ہی نے افریقی ملکوں میں غلامی کے احساس کو پیدا کیا اور آزادی کی جدوجہد کی بنیاد ڈالی۔
دنیا کے جتنے بھی مظلوم قوم تھے یا ہے ان کو ایک مقصد کے لیے متحد کرنے میں زبان،تقافت، کلچر نے ایک اہم کردار ادا کیا۔
اسی کی بدولت مظلوم قوموں نے قومی تشکیل کی جدوجہد کی اور اپنے مقصد کو پاسکے۔
تاریخ میں جب کبھی کسی قوم کی زبان،ثقافت،کلچر کو مٹانے کی کوشش ہوئی ہے تو اُس وقت قومی پارٹیوں نے لوگوں کے اندر نیشلزم کے جذبہ کو پیدا کرنے اور لوگوں کو جدوجہد میں آمادہ کرنے میں ایک نمایا کردار ادا کیا ہے ۔
کردوں میں قومی شناخت کو زندہ رکھنے اور کرد قوم کو آگاہی دینے اور کردوں کو ایک پلیٹ فارم میں متحد کرنے کردوں کی کلچر اور ادب کو فروغ دینے میں (پی کے کے ) نے اہم کردار ادا کیا۔
الجزائر میں بھی کمیونسٹ پارٹی نے عوام کو بیدار کرنے آگاہی پھیلانے اور عوام کو کلچر کے نزدیک کرنے اور غلامی سے جنگ لڑنے کے لیے نمایا کردار ادا کیا۔
غنی بساؤ اور افریقہ میں عوام کو حقیقی دشمن کو پہچانے ظلم اور ستم کو ختم کرنے اپنے کلچر کو زندہ رکھنے اور آزادی کے لیے جدوجہد میں پارٹی صف اوّل میں کھڑا ملتا ہے۔
دنیا کے ہر کونے میں جب کبھی قوموں کو اُن کے کلچر،زبان،ثقافت سے دور کرنے اور اُن کو دن پہ دن غلامی کی زنجیروں میں باندھ نے کی کوشش ہوئی ہے تو وہاں آزادی کی جدوجہد کوشروع کرنے سے لے کر جدوجہد کو منزل مقصود میں پونچھانے تک پارٹی نے اہم کردار ادا کیا۔
اگر بلوچ کلچر کا جائزہ لے تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بلوچ کلچر کو اجاگر کرنے یا بلوچ کلچر کی اہمیت کی بابت کام کرنے والے ادارہ ہمیں بہت کم نظر آتے ہیں یا ناہونے کے برابر ہےاس کی ایک اہم وجہ غلامی اور دوسری وجہ مذہبی اور تیسری وجہ انتہا پسندی ہے جن کے آگے غلام قوم کی کوئی کلچر نہیں ہوتی میرے نزدیک یہ بھی ایک انتہا پسندی میں شمار ہوتے ہیں اور علم کی کم ہونے کی صورت انتہا پسندی پیدا ہوئی ہے۔
بلوچ معاشرہ میں بی ایس او نے ہی کلچر کی اہمیت کوسمجھا ہے اور کلچر کی اہمیت کو اجاگر کرنے کلچر ڈی کے نسبت سےعوام میں شعور پیدا کرنے کیلئے کلچر ڈی کا انقاد کیا۔کیونکہ بی ایس او کے سنگتوں کو کلچر کی اہمیت کا علم تھااور وہ اپنے علم عوام میں آگاہی پھیلانا چاہتے تھے ایسی وجہ سے دشمن فوج نے 2010 کے کلچر ڈی پر طلبہ علموں پر حملہ کیا۔
انقلابی تحریکوں میں پارٹیوں نے اہم کردار ادا کیا ہے اور انقلابی پارٹیوں نے کلچر ،زبان،ادب ، اور معاشرہ کے ہر پہلووں پہ کام اور کامرانی نے اُن کی قدم چومی ہے۔
لیکن آج کل کلچر کے نام پر پیپلز پارٹی جیسے بلوچ نسل کش پارٹیاں بلوچوں کے کلچر کو مسخ کر رہے ہیں اور نوجوانوں کو حقیقی کلچر سے دور کررہے ہیں۔ایسے وقتوں میں بلوچوں کی حقیقی سیاسی پارٹیوں کو چاہیے کہ وہ ایسے پروگرام ترتیب دےکہ جہاں بلوچوں کو اُن کی حقیقی ثقافت،زبان،کلچر اور آزادی کی اہمیت کے بابت آگاہی دے