جامعات سے زندان تک زاھد بلوچ – دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ

972

جامعات سے زندان تک زاھد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ

بہزاد دیدگ بلوچ

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کا قیام ایک ایسے وقت میں وقوع پذیر ہوا، جب بلوچ سیاست اکیسویں صدی کے اوئل میں کروٹ بدلتے ہوئے، پارلیمانی سیاست سے نکل کر آزادی کی جدوجہد کی جانب تیزی سے رخ کررہی تھی، سیاست ڈرائینگ روموں سے نکل کر گلی کوچوں، بستیوں اور تعلیمی اداروں میں ایک مختلف ویژن کے ساتھ اثر انداز ہورہی تھی۔ ان حالات میں آزادی کا نعرہ لیئے بی ایس او آزاد بلوچ طلباء کی واضح نمائیندہ جماعت بن کر ابھری اور تب سے لیکر آج تک بلوچستان کی سب سے بڑی طلباء جماعت رہی ہے۔

روایت مخالف سیاست، آزادی کی واضح مانگ اور بلوچ سماج میں کسی بھی سیاسی جماعت سے زیادہ اثرانگیز ثابت ہونے کی وجہ سے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد ریاستی جبر اور پابندیوں کا شکار رہا ہے۔ 2013 میں باقاعدہ کالعدم ہونے سے پہلے ہی ایک بتدریج منصوبے کے تحت بی ایس او آزاد کو ختم کرنے کیلئے ریاستی مشینری متحرک نظر آرہی تھی اور ایک کثیر الجہتی کاونٹر انسرجنسی پالیسی پر عمل پیرا نظرآئی۔ اس منصوبے کا ایک شاخسانہ واضح طور پر بی ایس او آزاد کے لیڈرشپ کا مکمل صفایا کرنا ہے۔

ایک طلبہ تنظیم ہونے کے باوجود، اس وقت بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی موجودہ مرکزی قیادت مجبوراً زیر ذمین چلی گئی ہے، یا جلا وطنی اختیار کرگئی ہے یا پھر جبری گمشدگی کا شکار ہوکر ” لاپتہ ” ہیں۔ لاپتہ ہونے والی قیادت کی فہرست انتہائی طویل ہے، لیکن اس فہرست میں ایک شخص نال خضدار سے تعلق رکھنے والے زاھد بلوچ بھی ہیں۔ جس وقت زاھد بلوچ کو اغواء کیا گیا تھا وہ اس وقت بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے چیئرمین تھے۔ انہیں 18 مارچ 2014 کو فورسز نے اغواء کیا تھا، یوں اس سال انکے جبری گمشدگی کو چار سال پورے ہوجائیں گے۔

پر امن جدوجہد پر یقین رکھنے والے زاھد بلوچ، اگر خوش قسمت رہےہیں اور زندہ سلامت ہیں تو وہ 34 سال کے ہوچکے ہونگے، انہوں نے اپنی پوری زندگی طلبہ سیاست میں گذاری، بی ایس او آزاد کے چیئرمین شپ سے پہلے بی ایس او آزاد کے ہی سیکریٹری جنرل اور مرکزی کمیٹی کے رکن رہ چکے ہیں اور اس سے پہلے بی ایس او کے کراچی و نال زونز کے صدر کے حیثیت سے متحرک رہ چکے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی میں پولیٹکل سائنس کے طابعلم زاھد بلوچ ہاتھوں میں چار کتابیں اٹھائے کراچی اور بلوچستان کے مختلف جامعات میں بلوچ طلبہ سے ملاقاتیں کرتا اور انہیں بلوچ تاریخ ، سیاست اور سماجیات پر مباحث میں الجھاکر سوچنے پر مجبور کرتا۔

دی بلوچستان پوسٹ سے بات کرتے ہوئے زاھد بلوچ کے ایک سیاسی رفیق نے کہا کہ “وہ جامعات کہ حد تک ان بحث مباحثوں اور تنظیم سازی سے مطمئن نہیں تھے، وہ بی ایس او آزاد کو بلوچستان کے دیہی علاقوں تک میں پھیلانا چاہتے تھے۔ پھر وہ بلوچستان کے گلی کوچوں اور دور دراز کے چھوٹے چھوٹے اسکولوں میں بھی جاتے، وہاں اسٹڈی سرکلز لگاتے۔ جب حالات سخت ہوئے اور ہر طرف بی ایس او آزاد کے لیڈران اور کارکنان نشانہ بننے لگے تو وہ پھر بھی تنظیمی سرگرمیوں میں مصروف تھا، جب 18 مارچ 2014 کو وہ اغواء ہوئے، وہ تنظیمی کاموں کے غرض سے ہی کوئٹہ میں موجود تھے۔”

22 اپریل 2014 کو کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بی ایس او آزاد نے میڈیا کو اس بات سے آگاہ کیا کہ 18 مارچ 2014 کو بی ایس او آزاد کے مرکزی چیئرمین زاھد بلوچ کو اس وقت خفیہ اداروں کی مدد سے اغواءکیا گیا جب وہ تنظیمی امور کے انجام دہی کیلئے کوئٹہ میں موجود تھے، اغواءکے دوران اس وقت بی ایس او آزاد کے وائس چیئرپرسن اور موجودہ چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ سمیت دو اور مرکزی عہدیداران موجود تھے۔

اس اغواء کے خلاف بی ایس او آزاد نے 22 اپریل 2014 کو پریس کانفرنس کے ذریعے جس احتجاج کا اعلان کیا تھا وہ تاحال جاری ہے۔ ان احتجاجوں کے سلسلے کا آغاز بی ایس او آزاد کے مرکزی کمیٹی کے رکن لطیف جوھر بلوچ کے بھوک ہڑتال سے ہوئی، وہ 46 دن تک بھوک ہڑتال پر بیٹھے اور بالآخر عالمی انسانی حقوق کے اداروں کے یقین دہانی کے بعد انہوں نے اپنی بھوک ہڑتال ختم کردی لیکن احتجاجوں کا سلسلہ پھر بھی جاری رہا۔

ان چارسالوں کے دوران درجنوں بار پورے بلوچستان میں احتجاجی مظاھرے، شٹر ڈاون ہڑتال، علامتی بھوک ہڑتال ، ریلیاں، احتجاجی خطوط، سیمینارز، بیرونِ ممالک احتجاج، عالمی اداروں کے سامنے احتجاج، وفود سے ملاقات، زاھد بلوچ کے اپنے اہلخانہ کی کراچی اور اسلام آباد میں احتجاج اور علامتی بھوک ہڑتال وغیر ہوچکے ہیں۔ لیکن اس مسلسل احتجاج کے باوجود زاھد بلوچ چار سالوں سے لاپتہ ہی رہے۔

بی ایس او آزاد کے سابق چیئرمین زاھد بلوچ جبری گمشدگی کے چار سال پورے ہونے پر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد نے ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ زاھد بلوچ کے بازیابی تک احتجاج کا یہ سلسلہ جاری رہے گا، انہوں نے سوشل میڈیا پر احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ” چیئرمین زاہد بلوچ کی اغوانما گرفتاری کو چارسال مکمل ہونے پر 18مارچ 2018ء کو سوشل میڈیا میں  #SaveZahidBaloch #SaveBSOAzadLeaders    کے نام سے مہم چلائی جائے گی۔ تمام طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اس مہم میں بھر پور حصہ لیکر اپنے انسان دوستی کا ثبوت دیں۔”

دوسری طرف بلوچ نیشنل موومنٹ نے بھی زاھد بلوچ کے اغواء کو چار سال گذرنے کے موقع پر اپنے تمام زونوں کو تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ” 18 مارچ کو زاہد بلوچ کی عدم بازیابی کے خلاف بلوچستان اور بیرونی ممالک میں سیمینار اور ریفرنسز منعقد کئے جائیں گے۔ تمام زونوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اس ضمن میں تیاری شروع کریں۔”