ثقافت اکتسابی یا ارادی یا شعوری طرز عمل کا نام ہے۔
۔آسان الفاظ میں ثقافت انسانوں کے کسی گروہ کا کسی خاص علاقے میں مشترکہ طور پر مخصوص ماحول کے مطابق رسم و رواج اور ضرورتوں کے تحت ایک زبان، لباس ، اقدار کے حوالے سے زندگی گزارنا کہلا تا ہے۔
آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق ثقافت
فنون لطیفہ اور دیگرمظہرانسان کی فکری کامیابی کو اجتماعی طور پر سمجھا جاتا ہے۔نظریات،رسوم و رواج اور کوئی مخصوص رویہ قوم یا معاشرے کا برتاؤ ہوتا ہے۔
قارئین۔۔۔۔
چونکہ میں چاہتا ہوں کہ کلچر کی تعریف کو سمجھنے کے بعدمیں اپنی عنوان کا ذکر کرتا چلوں کہ ثقافت اقوام کیلے کتنا ضروری ہے اور ثقافت کو کیسے بچا یاجا سکتا ہے یا ثقافت ختم ہونے سے قوم کس حدتک متاثر ہو سکتی ہے دنیا میں مقبوضہ خطوں یا مقبوضہ اقوام کی ثقافت کس قدر اور کتنامحفوظ رہ سکا ہے۔انہی اقوام میں سے ایک قوم بلوچ جو جنوبی ایشیا میں قابض پاکستان کی زیردست ہے وہاں کلچر کی نوعیت کیا ہوگا؟
کس حد تک بلوچ ثقافت کوپزیرائی مل رہی ہے،بلوچ ثقافت کی بھلائی اور ترقی کے لئے کتنے ادارے سرگرم ہیں یا بلوچ کا اپنی پارٹیوں نے بلوچ ثقافت کو متعارف کرانے میں کس حد تک مخلصی کا مظاہرہ کیا؟
یہ تمام سوالات میں اپنے آپ سے کرتا رہا،بالآخر قلم اٹھاکر چند جملے لکھنے کی کوشش کررہاہوں تاکہ میں معاملے کوسمجھ سکوں وہ اس لیے کہ جس معاشرے یا سماج میں ہم نے ہوش سنبھالا ہے تب تک ہم تعلیمی اداروں سمیت کسی بھی بلوچ سیاسی پارٹی کی طرف سے بلوچ تقافت کے متعلق کچھ پڑھنے یا سننے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں ثقافت قوم کو متعار ف کرواتی ہے، ثقافت قوم کی پہچان ہوتی ہے،مگر بد بختی سے ہم اپنی ثقافت کو قابض پاکستانی اداروں یا وی آئی پی ہوٹلوں سمیت کسی سرکاری نمائندے کے استقبال میں تذلیل ہوتے دیکھ رہے ہیں، مگر اپنی کمزوریوں کے سبب اپنی ثقافت کو متعارف کرانے یا خاص پہچان دینے میں ناکام رہے ہیں،بلوچ کے زندہ ثقافت کو مسخ کرنے میں ریاستی اداروں سمیت نام نہاد بلوچ پارٹیوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جسکی واضح مثال بلوچستان میں ہونے والے حالیہ آپریشن میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ بلوچ ثقافت کے ساتھ ہونے والے سوتیلے رویے کو دیکھ کر بلوچ نوجوانوں کی طلبا تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزادنے اپنی پالیسی ساز ادارے میں ۲مارچ کو بلوچ یوم ثقافت کا دن مقررکیااور اسی دن کی مناسبت تمام Zonesکو تاکید کی کہ بلوچ قومی کے تاریخ تھ ساتھ بلوچ ثقافت پرپروگرامز منعقد کریں ۔
اسی دن کی مناسبت میں ہونے والے آشوبی پروگرام بنام بلوچ کلچرل ڈے مرکزی جلسہ خضدار انجینئرنگ یونیورسٹی میں ہورہاتھا جہاں اس پروگرام میں خضدار کے قرب وجوار سے لوگ شرکت کررہے تھے۔ کامیاب پروگرام ریاستی اداروں اور اس کے پالے ہوئے کرایے کے قاتل شفیق اور اسکی ٹیم کو ہضم نہیں ہوسکی تو ردعمل میں ہونے والے ثقافتی پروگرام پر حملہ کیا گیا، جس سے بی ایس او کے ارکان سکندراور جنید شہید اور بہت سارے لوگ زخمی ہوچکے تھے، بلوچ ثقافت کی ابتداء بلوچ نوجوانوں نے اپنے لہو سے کیا تو ۲مارچ باقاعدگی سے پوری قوم کے ثقافت کو متعارف کرتی چلی آرہی ہے، اسی دن کے مناسبت بلوچستان سمیت دنیا بھر میں تمام بلوچ اس دن کو بلوچ کلچر ڈے منارہے ہیں، مگر اسی دن کو اپنے مقدس لہو سے آبیاری کرنے والے بی ایس او کے کارکن شہید سکندر اور شہید جُنید کو ثقافت منانے والے بلوچ کتنے جانتے ہونگے؟ میں ان تمام دوستوں سے پوچھنا چاہتا ہوں جو مختلف ناموں اور مختلف اداروں کی طرف بلوچ ثقافتی دن کو منا رہے ہیں، کیا وہ بلوچ تاریخ اور بلوچ ثقافت کو سمجھ رہے ہیں؟ کیا ۲مارچ میں بلوچی پاگ اور بلوچی چوٹ پہنے سے ہم اپنی ثقافت کو بچا سکتے ہیں؟
کیا ۲مارچ کو شہید ہونے والے دوستوں کی یوم شہادت پر ہم کراچی سی ویو میں اپنی ثقافت کی تذلیل خود نہیں کررہے ہیں؟
کیا بلوچ اور ثقافت کے نام پر کاروبار کرنے والے حضرات بلوچ روایات سے واقفیت رکھتے ہیں؟ ہرگز نہیں !ثقافت کی بقا تب ہو سکتی ہے جب قوم کی بقا و سلامتی محفوظ ہو، جب قوم کی بقا خطرے میں ہے تو ہمارے فرزند دن کودن دھاڑے مارے جارہے ہیں ،بلوچ قوم کو اپنی سرزمین سے بیدخل کیا جارہا ہے خواتین و بچوں کو اغواء کیا جارہا ہے بلوچوں کے گھر جلاے جارہے ہیں بلوچی پاگ اور چوٹ پہنے والے بلوچوں کی تذلیل کی جارہی ہے تو پھر ان تمام ظلم و زیادتیوں کے خلاف کیوں ہم خاموش ہیں؟ کیا ہماری ضمیر نے ہم سے سوال نہیں کیا ہے،کیا بلوچ کی بقاء کے لئے جدوجہد کرنے والے ان عظیم ہستیوں کو ہم جانتے ہیں جنھوں نے ہماری بقا کیلے اپنا سب کچھ دیا۔ انہی سوالات کے جواب میں میں کلچر منانے والوں سے سننا چاہتا ہوں ۔اسی امید کے ساتھ میں منتظر رہونگا،ساتھ ہی بلوچ روایات میں ہمیشہ ایک چیز کی وضاحت ہوئی ہے کہ اگر آپ کے بھائی یا قوم کے کوئی بھی فرزند مصیبت میں ہو تو آپ اپنی تمام مصروفیات اور روزمرہ کے کام کاج چھوڑکر متاثرہ شخص کی مدد کو پہنچنا، مگر آج ہم اپنے قوم کو حالت جنگ میں بدحال اور کسمپرسی کی زندگی گزارتے دیکھ کر ان روایات کو مسخ نہیں کررہے ہیں جو بلوچ سماج میں اعلی اورمعززسمجھے جاتے ہیں۔
ثقافت کو ۲مارچ تک محدود کرنا اپنی ثقافت کے گلا گھونٹنے کی مترادف ہے، واقعی آپ ثقافت کو ایک نام یا پہچان دینا چاہتے ہیں تو مہربانی کرکے اپنے ثقافت کی تاریخی پس منظر کو مد نظر رکھیں اور بلوچ ثقافت و روایات کو اسطرح مسخ نہ کریں جسے ہم ۲مارچ میں دیکھ رہے ہیں وہ حضرات جو شعوری یا لا شعوری اس دن کی مناسبت ہونے والے پروگرامز میں حصہ لے رہے ہیں تو میں سمجھتا ہوں وہ ریاستی اداروں کیلے وہ کام آسان کر رہے ہیں جسے وہ چاہتے ہیں کہ بلوچ اپنی تاریخی ،تزویراتی اہمیت کو پاوں تلے روندھ ڈالیں ۔جو نام نہاد اتحاد یا ریاستی پیرول پر کام کرنے والے بلوچی چینل وش نیوزیوم ثقافت کو منارہے ہیں سواے کاروبار اور بلوچ ثقافت کی تزلیل کے اور کچھ نہیں،میں اپنے تمام دوستوں سے التجا کرتاہوں کہ ان پروگرامز کی حوصلہ شکنی کریں اور باور کراہیں کہ بلوچ ثقافت ایک وسیع تاریخ رکھتی ہے، بلوچ ثقافت و روایات میں باہوٹ،میارجلی،مہمان نوازی،رہن سہن ،اپنی عزت وغیرت کی بقا پر سر دینا ،سرفہرست ہیں لہذا بلوچ ثقافت یہ نہیں جسے پیش کیا جارہا ہے۔
*پاکستان پرست بلوچ اور بلوچ ثقافت پہ انکے رویوں کے اثرات۔۔۔
چونکہ بلوچ سیاست دو حصوں میں تقسیم ہے پارلیمانی اور غیر پارلیمانی ،جب زمینی حقائق اور بلوچستان میں موجودہ حالات اور بلوچ قوم پر ہونے والے ظلم وجبر کی باریک بینی سے تجزیہ کریں تو اس دورانیے میں ہونے والے کاروائیوں کی پس پردہ کرنے والی قوت پاکستان پرست بلوچ ہیں جو ریاستی اداروں کے ساتھ ملکر بلوچ روایات کی پامالی میں ساتھ رہے اور آج بلوچستان میں ثقافت کا دن منایا جاتا ہے تو اس میں اکثریت پاکستان پرست بلوچوں کا ہے جو دوران آپریشن خود بلوچ روایات یا ثقافت کی تذلیل کرنے میں ساتھ ہیں ۔بلوچستان میں ہونے والی جارحیت اور پاکستان پرست بلوچوں کے مشترکہ رویے بلوچ زبان،ثقافت ،اور رسم ورواج کو نہ صرف متاثر بلکہ ختم کرنے میں بھر پور لگے ہوے ہیں۔میں سمجھتا ہوں یہ خطرناک رویے نہ صرف بلوچ ثقافت کو بلکہ پوری قوم کی بقا و سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی ناکام کوشش ہے لہذا اس ہونے والے رویے اور نام بلوچ یوم ثقافت کا دن ہماری اصل ثقافت کی روح کو مسخ کرنے کا سبب بن رہی ہے