بین الاقوامی قانون میں پاکستان سپریم کورٹ کے احکامات کی کوئی وقعت نہیں: حسین حقانی

159

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر، حسین حقانی نے کہا ہے کہ ’’پاکستان میں ایک عدالتی تماشہ لگایا گیا ہے‘‘، جب کہ، بقول اُن کے، ’’بین الاقوامی قانون میں سپریم کورٹ کے احکامات کی کوئی وقعت نہیں‘‘۔

اُنھوں نے کہا ہے کہ اُنھیں ’’اب تک کسی قسم کے کوئی عدالتی احکامات موصول نہیں ہوئے‘‘۔

حسین حقانی نے کہا کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ پہلے بھی یہ تماشہ لگایا گیا تھا۔ ’میمو گیٹ‘ کا ایک ہنگامہ اور شور شرابہ ہوا۔ اُس کے بعد چار چیف جسٹس آئے، جنھوں نے سماعت تک نہیں کی‘‘۔

جب اُن سے پوچھا گیا آیا عدالتی احکامات اُن کے لیے کیا معنی رکھتے ہیں، تو اُنھوں نے کہا کہ ’’نہ صرف میرے لیے، بلکہ باقی دنیا کے لیے کوئی معنے نہیں رکھتے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’ساڑھے چھ برس بعد جب آپ مقدمہ کھولیں گے، تو باقی دنیا کی نگاہ میں اُس کی کوئی وقعت نہیں ہوگی‘‘؛ اور یہ کہ ’’عدالت عظمیٰ کے احکامات بھی بین الاقوامی قانون کے طابع ہوتے ہیں‘‘۔

حسین حقانی نے کہا کہ ’’اِس کا ایک طریقہٴ کار ہوتا ہےجسے ’ملک بدری‘ کہا جاتا ہے، جب ایسا ہوا تو اس کا مقابلہ کیا جائے گا، اور یہ کہ اُس وقت یہ پتا چلے گا کہ دنیا کی نگاہ میں ایسے احکامات کی قانونی حیثیت کیا ہے‘‘۔

اُنھوں نے اِس بات کو غیردرست قرار دیا کہ وہ کہہ چکے ہیں کہ عدالت کا سامنا کرنے کے لیے پاکستان جائیں گے۔ بقول اُن کے، ’’میں نے یہ کبھی نہیں کہا۔ یہ بات بالکل جھوٹ ہے۔ میں تیار ہوں اگر تو قانونی چارہ جوئی کا طریقہٴ کار مروجہ ضابطوں کے مطابق ہو، مقدمے کی کوئی باقاعدہ کارروائی ہو۔ کسی یکطرفہ کارروائی کو باقی دنیا قانونی نہیں سمجھتی، اور میں بھی قانونی نہیں سمجھتا‘‘۔

سابق سفیر نے کہا کہ ’’یہ کارروائی اُس وقت شروع کی گئی تھی جب میں استعفیٰ دینے پاکستان گیا تھا، اور سپریم کورٹ نے یکطرفہ طور پر بغیر مجھے اور میرے وکیل کو سنے میرے ملک چھوڑنے پر پابندی لگادی تھی۔ اُس کے بعد سپریم کورٹ میں جو کارروائی ہوتی رہی وہ یہ تھی کہ ایک کمیشن بنایا جائے اور اگر کمیشن کو میرے بیان کی ضرورت ہو، تو میں نے کہا تھا کہ میں بیان دینے کے لیے تیار ہوں۔ وہ بیان میں نے دے دیا ہے۔ پھر اُس پر جرح کے لیے بھی میں حاضر تھا کہ جس طرح میرے اوپر الزام لگانے والے کو بلایا گیا ہے ’وڈیو لنک‘ کے ذریعے مجھے بھی بلایا جاتا۔ یہ جو اصرار ہے کہ آؤ آؤ آؤ، اس سے سازش کی بو آتی ہے‘‘۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’اِس کا مطلب سوائے اس کے کچھ نہیں کہ پاکستان کے وہ خفیہ ادارے جو پاکستان میں لوگوں کو غائب کردیتے ہیں، میرے پاکستان آنے کے بعد، مجھے غائب کر دیں یا قتل کر دیں‘‘۔

یہ معلوم کرنے پر آیا وہ حکومت پاکستان یا عدلیہ سے اپنے تحفظ کے لیےگارنٹی چاہتے ہیں، اُنھوں نے کہا کہ وہ ’’اس رویے کو ہی غیر قانونی‘‘ سمجھتے ہیں۔

یہ پوچھنے پر کیا اُنھیں پاکستان لانے کےلیے ایک ماہ کی مہلت سے متعلق احکامات ملے ہیں، حسین حقانی نے کہا کہ ’’جی نہیں‘‘۔ بقول اُن کے ’’حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں اعلیٰ عدالتیں اب اتنا جھوٹ بولنے لگی ہیں کہ پچھلی مرتبہ کہا گیا کہ مجھے نوٹس دیا گیا ہے، جب کہ مجھے کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا‘‘۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ مقدمات نچلی عدالت میں چلا کرتے ہیں جب کہ اپیل کے مرحلے پر معاملہ عدالت عظمیٰ میں جایا کرتا ہے۔ لیکن، اس معاملے میں ایسا نہیں ہو رہا۔

اُن کے جملے پر کہ اُنھیں ’’سازش کی بو آرہی ہے‘‘، وضاحت معلوم کرنے پر، حسین حقانی نے کہا کہ وہ چار کتابوں کے مصنف ہیں، اور پاکستان کے اُن چند لوگوں میں سے ہیں ’’جن کی آواز دنیا بھر میں سنی جاتی ہے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’وہ ادارے جو نہیں چاہتے کہ پاکستان میں مسائل پر کُھل کر بحث ہو کہ پاکستان کے لیے کون کون سی مختلف راہیں کھلی ہوئی ہیں، وہ تمام افراد کو سازش کا نشانہ بناتے ہیں۔۔۔ اور فروعی معاملوں میں الجھاتے ہیں‘‘۔

حسین حقانی نے کہا کہ مثال کے طور پر نوزائدہ بچوں کی اموات، خواندگی کی کم شرح، تعلیمی معیار کی پستی اور معیشت کی خراب کارکردگی جیسے معاملات پر مباحثہ ہونا چاہیئے جب کہ ’’پاکستانی قوم کو اس الجھن میں پھنسا کر رکھا گیا ہے کہ کون غدار ہے اور کون وفادار ہے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ جب وارنٹ موصول ہوں گے، تو بقول اُن کے ’’اس سے نمٹ لیں گے‘‘۔