بولان میڈیکل کالج کا ڈاکٹر – بیبرگ بلوچ

620

بولان میڈیکل کالج کا ڈاکٹر

تحریر: بیبرگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ کالم

بعض دفعہ یہ الفاظ سننے کو ملتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، یہ الفاظ ایسے واقعات کے دلیل میں کہی جاتی ہیں کہ ایسے واقعات دہرائے جاتے ہیں اور ان اعمال کے رد عمل میں دہرائے ہوئے واقعات ایک بار پھر دہرائے جاتے ہیں۔ گذشتہ رات بولان میڈیکل کالج میں زیر تعلیم فائنل ائیر کے بلوچ طالبعلم ڈاکٹر سعید بادینی بلوچ کو سیکورٹی فورسز نے کالج کے مین ہاسٹل سے اٹھا کر لاپتہ کردیا، یہ واقعہ گذشتہ اس واقعہ کی یاد دلاتا ہے جب اسی کالج میں ایک بلوچ طالب علم سراپا احتجاج صرف اس وجہ سے بنا کہ کیوں کالج کے چپڑاسی کو غیر قانونی طور پر نکالا گیا ہے۔

بعد ازاں اس ڈاکٹر کو 24 مارچ 2005 کو کراچی سے اٹھا کر خفیہ اداروں نے لاپتہ کردیا، آج وہی ڈاکٹر جسے بلوچ تاریخ، مرد آہن کے نام سے پکارتی ہے اور آج وہ ڈاکٹر بلوچ قومی تحریک کا روح رواں بن چکا ہے۔ اس ڈاکٹر کا نام ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ ہے اور دنیا اسے ایک ڈاکٹر کی بجائے ایک گوریلا جنگجو کے نام سے پہچانتا ہے. یہ دونوں غیر قانونی ریاستی اعمال کو ہم تاریخ کی روشنی میں دیکھیں تو ان میں کچھ فرق نہیں کیونکہ دونوں طالب علموں کا تعلق ایک ہی قوم اور ایک ہی شعبے اور ادارے سے تھا، جن کا مقصد اپنے غریب و لاچار قوم کی بیماریوں کا تشخیص وہ علاج کرنا تھا لیکن ریاستی مظالم اور اذیت نے ایک ڈاکٹر کو ایسا مسیحا بنا دیا کہ وہ اپنے سماج کے فرسودہ نظام کے علاج کے لئے بندوق اٹھانے کا فیصلہ کرتا ہے کیونکہ اسے علم تھا کہ ریاست نے بلوچ سماج میں غلامی جیسی ناسور بیماریاں پھیلائیں ہیں اور دن بدن ریاستی آلہ کار اس ناسور بیماری کو دوام بخشنے پر تلے ہوئے ہیں. جن کا علاج صرف بندوق سے ہی ہوسکتا ہے۔

ہاں البتہ ان دو ڈاکٹروں میں ایک فرق ہے کہ ایک تھرمامیٹر اور دوائی کے ذریعے اپنے بے بس اور لاچار قوم کا علاج کرنے کا مقصد لیئے بولان میڈیکل کالج تک پہنچا اور دوسرا مشکے کے پسماندہ دیہات سے میڈیکل کالج پہنچا اور آج اپنے قلم اور بندوق کی طاقت سے قومی غلامی کو جڑ سے اکھاڑنے کا مقصد لئے میدان عمل میں برسر پیکار ہے۔. کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کہیں تاریخ اپنے آپ کو دہرا تو نہیں رہی ہے؟ اگر اسی طرح ہوا اور یہ ریاستی عمل متواتر جاری رہا تو اسکے رد عمل میں جو بھیانک نتائج نکلیں گے، اس کا ذمہ دار بھی ریاست ہی کے نام نہاد ادارے ہونگے۔