بلوچ قوم پشتون لانگ مارچ کی کوئٹہ آمد پر بھرپور شرکت کریں : خلیل بلوچ

406

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے اپنے ایک بیان میں پشتون قوم کی جانب سے لانگ مارچ اور حقوق کی جد و جہد کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے بلوچ قوم سے اپیل کی ہے کہ پشتون لانگ مارچ کی کوئٹہ آمد پر بھرپور شرکت کرکے پشتون قوم پر ہونے والی مظالم پر آواز اُٹھانے والوں کا ساتھ دیں۔ بلوچ قوم کی طرح پشتون اور سندھی ایک محکوم قوم ہیں۔ انہیں اپنی شناخت کو برقرار کیلئے پنجابی بالادستی اور پاکستانی مظالم کے خلاف جہد آزادی جیسے عظیم عمل کی شروعات کرنی چاہئے۔ پاکستان کا وجود میں آنے کے بعد دوسری قومیتوں کو جس طرح نوزائیدہ ملک کا حصہ بناکر استحصال شروع کیا گیا وہ آج تاریخ کی بدترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ بلوچ، سندھی، پشتون اور دوسری قوموں کا نہ صرف معاشی استحصال جاری ہے بلکہ ان کی زبان و ثقافت کو داؤ پر لگایا ہوا ہے۔ یہ تاریخی جبر و استبداد اس وقت ختم ہوسکتے ہیں جب یہ قومیں اپنی سرزمین ، وسائل اور شناخت کا مالک اور فروغ کیلئے آزاداوراقتداراعلیٰ کے مالک ہونگے۔
خلیل بلوچ نے کہا کہ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ پشتون قوم کو آج احساس ہوگیا ہے کہ ان کا قتل عام اور نسل کشی کی جارہی ہے۔ان میں اس مسئلے پر یکجہتی نظرآرہاہے جو مستقبل میں اس خطے کے مظلوم اقوام کے لئے بہتر مستقبل کی نوید بن سکتاہے۔ ہزاروں بلوچوں کی طرح پشتون بھی ریاستی دہشت گردی کا شکار ہوکر شہید ہوچکے ہیں اور اسی طرح ہزاروں خفیہ زندانوں میں مقید ہیں۔ یہی صورتحال سندھ میں سندھی قوم سامنا کر رہا ہے۔ اس ملک نے ہمیں ایک غلام ہونے کا احساس دلانے میں کئی کارنامے انجام دیئے ہیں، اگر اس کے باوجود کوئی شخص یا قوم یہ سمجھنے سے قاصر ہے تو ان کا مستقبل تاریک اور گمنام ہے۔
انہوں نے کہا کہ نقیب اللہ محسود کی ماورائے عدالت قتل کے بعد جس طرح پشتونوں نے اسلام آباد میں دھرنا دیکر قتل عام کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کی کوشش کی، اس کے بعد یہ لانگ مارچ پشتونوں پر ہونے والی مظالم کے خلاف ایک اور بلند آواز ہے۔ اسلام آباد دھرنے میں سوات کی بوڑھی ماں لمبرو کی دل دکھانے والی داستان پشتوں سمیت تمام قوموں کیلئے ایک سبق ہونی چاہیے کہ اس ملک میں کسی کا جان و مال اور عزت محفوظ نہیں۔ لمبرو کی چار بیٹے ہیں مگر ان میں ایک بھی اس کے پاس نہیں ہے۔ وہ 2009 سے اس کرب میں مبتلا کئے گئے ہیں مگر نوسال بعد دنیا کو معلوم ہوگیاکہ ایک بوڑھی ماں بیٹوں کی راہ تکتے تکتے آنکھوں کی بینائی کھو بیٹھی ہیں۔ 2009 میں اس کے بیٹے اسحق کو فورسز نے اُٹھا کر تین مہینے بعد قتل کیا۔ 2012 کو ان کے بیٹے ذکریا کو اغوا کیا گیا جو تاحال لاپتہ ہے اور پرسان حال کوئی نہیں۔ سوات سے ہجرت پر مجبور لمبرو کے دو بیٹوں کو کراچی سے اس کی آنکھوں کے سامنے 2015 کو پولیس نے اغوا کیا اور بعد میں لاشیں حوالے کیں۔ ایسے کئی داستانیں زیر زمین ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ پشتون قوم ان کے ازالے کیلئے ایک سیدھی راہ کا تعین کرے۔
بی این ایم کے چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ پشتونوں کے درد اور اُن پر بیتی مظالم کو بلوچ قوم سے زیادہ کوئی اور محسوس نہیں کر سکتا کیونکہ ہم ستر سالوں سے غلامی، مظالم اورجبر کا سامنا کر رہے ہیں۔ گزشتہ اٹھارہ سالوں میں اس جبر میں جو تیزی آئی ہے، ہمیں امید ہے کہ پشتون قوم کو اس کا علم اور احساس ہے۔ ان مظالم کے خلاف ہمیں ایک مشترکہ جد و جہد کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارا دشمن ایک ہے اور ہم ایک ہی طرح محکومی، غلامی اور جبر و استبداد کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہمارا ایک ہونا ایک فطری عمل ہوگا۔