بلوچ قومی جدوجہد پیچیدگیاں، سوالات، الزامات ،راہِ فرار یا تھکاوٹ – عبداللہ بلوچ

603

بلوچ قومی جدوجہد پیچیدگیاں ، سوالات، الزامات ،راہِ فرار یا تھکاوٹ 

تحریر: عبداللہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ :  کالم

بلوچ قومی جدوجہد میں پائے جانی والی خامیوں اور پیچیدگیوں کی نوعیت شائد ہی انوکھے یا خاص ہوں کیونکہ دنیا میں جہاں بھی آزادی کی تحریکیں چلی ہے۔ وہاں خامیاں، غلطیاں، پیچیدگیاں، الزامات اور راہِ فرار اختیار کرنے والے یا تھک جانے والے موجود رہے ہیں۔ دنیا میں شاہد ہی کوئی ایسی تحریک ہو، جس میں رہنماء اس بات پر نہ الجھے ہوں کہ کون بہتر طریقے سے راہنمائی کرسکتا ہے اور قوم کو اپنی منزل مقصود تک پہنچا سکتا ہے لیکن ان تمام تر مسائل کی موجودگی میں بھی قوم کو ایک بہتر اور مثبت راستہ دکھانے والے ہی دنیا کی تاریخ میں اپنا نام سنہرے لفظوں میں رقم کروا کر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ یہ وہ رہنماء تھے، جنہوں نے نہ صرف بیرونی دشمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، بلکہ اندرونی طور پر تحریک کو نقصان دینے والوں کا احتساب بھی کرتے رہے ہیں۔

ان تمام اقدامات کا یقینی بننا صرف لیڈر کی خواہشات یا سوچ سے ہی منطقی انجام تک نہیں پہنچے بلکہ ایک مکمل انقلابی پارٹی کی ضرورت کو پورا کرنے کے بعد سزاو جزا احتساب برابری مساوات اور اپنی قوموں کو برطانوی، امریکی، یورپی یا پھر اپنے ہی ملک کے ظالم حکمرانوں کی غلامی سے آزادی دلانے اور مکمل طور پر غلامی سے پاک زندگی میسر کرنے کی جدوجہد میں لگ گئے۔ اِس جدوجہد میں ویتنام ، کیوبا ساوتھ افریقہ ، بھارت، بنگلہ دیش اور آئرلینڈ جیسے دیگر کئی ممالک نے بھی نہ صرف عظیم تر قربانیاں دی ہیں بلکہ آزادی کو حاصل کرنے کے جدوجہد سے لیکر اس آزادی کو عام کرنے کی جدوجہد میں بہت سے مشکلات کا سامنا کیا ہے اور بہت سے بے وجہ الزامات اور دروغ گوئیوں کو بھی برداشت کیا اور اپنی انقلابی پارٹیوں کی محنت اور کاوشوں سے نہ صرف عوام میں اپنی شناخت منوانے میں کامیاب ہوئے بلکہ پروپیگنڈہ کرنے والے جھوٹ بولنے والوں کا بھانڈا بھی اپنے عمل سے توڑ دیا۔

بلوچ جہد آزادی بھی آج ایک ایسے موڑ پر ہے، یہاں پیچیدگیاں بہت ہیں، حالات کچھ ایسے بن گئے ہیں کہ نا چاہتے ہوئے بھی، بلوچ قومی جدوجہد طبقات میں بٹ چکا ہے، کوئی اچانک سے مڈل کلاس بن گیا ہے، تو کسی کو اپنے نوابزادگی کا احساس ہو چلا ہے۔ کہیں کوئی کسی کو یہ احساس دلا رہا ہے، ہم قبائلی لوگ ہیں اور تحریک ہماری مرہونِ منت ہے، تو کوئی کہہ رہا ہے کہ نہیں جی یہ تحریک تو پڑھے لکھے باشعور بلوچ نوجوانوں کی شروع کردہ تحریک ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے، اگر ہم قبائلئ بشمول ہمارے سردار پاکستان سے مذاکرات کرلیں تو مڈل کلاس کو انکی اوقات اور اہمیت کا اندازہ ہوجائےگا۔ تو دوسری جانب سے کوئی مڈل کلاس بن کر کہہ رہا ہے کہ جی سرکار آپ سے مذاکرات پر آمادہ نہیں ورنہ پتہ نہیں کب کا آپ اپنا بوریا بستر باندھ چکے ہوتے۔

کچھ سوالات بھی ان حالات اور واقعات کے پیش نظر پیدا ہوئے ہیں، جنہیں یہاں رکھنا ضروری ہے۔ بلوچ قومی اتحاد کی شکل کیا ہے اور اس اتحاد واضح اور بہتر انداز میں کیسے بیان کیا جاسکتاہے؟ بلوچ قومی سرمچاروں نے گذشتہ کچھ مہینوں میں دو اتحاد قائم کیے ہیں ایک بی ایل اے اور بی ایل ایف کے درمیان، دوسرا بی آر اے، یو بی اے اور لشکر بلوچستان کے درمیان۔ اب اگر دیکھا جائے تو ان دونوں اتحادوں سے فائدہ تو بلوچ قومی تحریک اور بلوچستان کا ہی ہوگا، لیکن کچھ تنظیموں کے کارکنان ایک دوسرے کے اتحادوں پر کیچڑ اچھالنے میں مگن ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنے اتحاد کو زیادہ موثر، پائیدار اور بلوچ قومی تحریک کیلئے فائدہ مند ثابت کرنےکے چکر میں لگے ہوئے ہیں۔

استاد واحد قمبر بلوچ کا آرٹیکل، جس میں انہوں نے اپنے ماضی کے تجربات اور ایک انقلابی تنظیم بابت اپنے خواہشات کا اظہار کیا، ایسا کرنے پر مخصوص حلقوں کا ایسے آگ بگولہ ہونا، جیسے استاد نے کسی غلط چیز کی خاطر خواہش کا اظہار کیا ہو۔ کیا ہم واقعی اپنے تنظیموں کو انقلابی تقاضوں کے مطابق چلارہے ہیں؟ کیا ہمارے سیاسی ڈھانچے روایتی نہیں؟ جو کہ آج کے دور کے ساتھ اپڈیٹ ہونے کی صلاحیت بھی گنوا چکا ہے۔ کیا بلوچ سیاسی اور مسلح پارٹیوں کے واقعتاً جمہوری طور سے فیصلے ہوتے ہیں؟ کیا ہم فردی فیصلوں کو آنکھ بند کرکے قبول تو نہیں کررہے؟ اگر یہ چیزیں اب بھی ہمارے تنظیموں اور اداروں میں وجود رکھتی ہیں، تو ہمیں نہ صرف استاد واحد قمبر کی باتوں کو دوبارہ سے پڑھنا ہوگا بلکہ ان باتوں سے ہی اپنے لیئے راستہ ڈھونڈنا ہوگا۔

بلوچ سیاست میں ایک اور خامی جوکہ الزامات کی شکل میں اُبھر کر سامنے آیا ہے، یہ الزامات کا سلسلہ ایک مخصوص گروہ کی جانب سے مختلف لوگوں پر لگتے رہے ہیں، جیساکہ ایک دور میں نواب مرحوم خیر بخش مری پر مڈی چوری کا الزام لگا کر قومی مجرم قراردینا، نواب مہران مری پر عیاشی اور تحریکی پیسوں میں غبن کرنے کا الزام لگا کر سوشل میڈیا میں احتساب کرنا، نواب براھمدغ کو غیر سیاسی، ناقابل بھروسہ، انا پرست، گروہی سیاست کو پروان چڑھانے والا اور پس پردہ پاکستان سے مذاکرات کرنے جیسے الزامات لگا کر فیسبوک میں قومی عدالت لگا کر احتساب کرنا۔ کمانڈر اسلم بلوچ پر انڈین پراکسی، تنظیمی اصولوں کی خلاف ورزی کرنے جیسے الزامات لگا کر، انہیں سوشل میڈیا کی حدتک تنظیم سے معطل کرنا، ڈاکٹر اللہ نظر اور گلزار امام پر منشیات فروشی، عام لوگوں کا بے جا قتل، ایران کا پراکسی اور قومی تحریک کو گروہیت کی طرف لے جانے کا الزام لگا کر انکا احتساب بھی سوشل میڈیا میں کرنے والوں نے آج تک کسی بھی ایک معاملے میں کوئی ثبوت قوم کے سامنے پیش نہیں کیا ہے، ماسوائے لمبے چھوڑے آرٹیکلوں کے۔ اگر یہ تمام تر باتیں جھوٹ پر مبنی تھیں اور کوئی بھی ثبوت مذکورہ گروہ پیش نہیں کرسکا ہے پچھلے چھ سالوں میں، تو اب انکا احتساب ہونا چاہیے کیونکہ ان چھ سالوں میں کافی حد تک تحریک کو نقصان پہنچایا گیا ہے اور ذاتی طور پر کافی فائدہ لیا گیا ہے۔

ان تمام پیچیدگیوں، سوالات اور الزامات کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ کچھ لوگ اور گروہ تحریک سے راہِ فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں اور اسی لیے وہ روزانہ کی بنیاد پر ایک من گھڑت کہانی بناتے ہیں اور قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی وہ یہ شوشہ چھوڑتے ہیں کہ جی تحریک میں شامل باقی تمام تنظیم اور لیڈران یا تو غدار ہیں یا پھر پراکسی ۔ کبھی وہ کہتے ہیں باقی تمام تنظیموں اور پارٹیوں کو ختم کرکے میرے ساتھ چلو جب کہ اپنے پاس ایک مکمل سیاسی ڈھانچہ بھی موجود نہیں۔ کبھی اپنے ہی دوستوں کے سامنے اچانک سنگت سے نوابزادہ بن جاتے ہیں۔ ایسے حالات و واقعات میں ایک شخص کسی بھی طور پر فیصلہ لینے کا اہل نہیں ہوسکتا، اسے قومی تحریک کے سر کا تاج بنانے کی سرتوڑ کوشش کرنے والے اگر بجائے شخصیت کو خدا ثابت کرنے، کردار کی حقائق کو بیان کریں تو یہاں ہر کوئی اپنی صلاحیتوں اور حیثیت سے نہ صرف واقف ہوجائے گا بلکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق کام بھی کرسکے، وگرنہ بغیر کسی وجہ کے چیخنے چلانے سے نہ تو بلوچ قوم آپ کی آواز سنے گی اور نہ ہی تحریک آپ کیلئے رکے گی۔

( دی بلوچستان پوسٹ اپنے قارئین کی دلچسپی کیلئے ہر طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے لکھاریوں کے معیاری کالم اپنے صفحوں پر جگہ دیتا ہے، خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)