بلوچ خواتین بارے عالمی اداروں کی خاموشی ان کے وجود پر سوالیہ نشان بن چکاہے – بی این ایم انفارمیشن سیکریٹری

304

بلوچ نیشنل موومنٹ کے انفارمیشن سیکریٹری دل مراد بلوچ نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اپنے بیان میں کہاہے کہ گزشتہ ستر سالوں سے بلوچ قوم ایک ایسی ریاست کی کالونی اور غلام ہے جو انسانی اقداراورتہذیب سے محروم ہے۔دنیا کو یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان وہ ریاست ہے جس کی فوج نے لاکھوں بنگالی خواتین کی عصمت دری کی اوریہی فوج بلوچستان میں وہی عمل دہرارہاہے۔ مگر فرق یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی آزادی سے حقائق دنیاکے سامنے آئے لیکن بلوچ قومی غلامی اور آزادمیڈیا کے عدم رسائی کی وجہ سے عالمی دنیا بلوچ خواتین پر جاری پاکستانی فوج کے مظالم سے ناآشنا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان انسانیت اوراخلاقی قدارسے عاری ایک درندہ صفت ریاست ہے۔ اس کاعکس ہمیں اس کے سماجی تضادات سے بھرپور سماجی ساخت اورجنونیت پر مبنی رویوں میں ہر موڑ پر نظر آتا ہے۔پاکستان میں عورتوں پر ہونے والی درندگی اور حیوانیت کے حوالے سے مختیاراں مائی سے معصوم بچی زینب تک ایسے ہزاروں مثالیں ملتی ہیں ۔بلوچستان میں فوجی بمباری سے بی بی حلیمہ اور دو سالہ بچی بختی کی شہادت ایسی مثالیں ہیں جو اب تک ان الفاظ اور صفحات کا منتظر ہیں جس کا وہ حق دار ہیں۔ بلیدہ کی فاطمہ بلوچستان کا ملالہ بن سکتی تھی مگر عالمی عدم توجہی کی وجہ سے وہ ایک سال تک زخموں کا درد کاٹ کر شہید ہوگئیں۔ ایسے میں خواتین کا عالمی دن دنیا کے کسی بھی حصے سے زیادہ بلوچستان میں ماتم زدہ ہوگا۔ بنگلہ دیش کے تجربے اور پاکستان کے اپنے سماجی رویوں کا جائزہ لیاجائے تو یہ امرثابت ہوتاہے کہ پاکستانی ریاست اور ریاست کے تمام ادارے مجموعی طورپربلوچ قوم کے خلاف جنگی جرائم اورناقابل بیان استحصال میں مصروف عمل ہیں۔

دل مراد بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں اجتماعی سزا کے ساتھ اور ایک نئے اضافی حربے کے طور پر خواتین کے بارے میں بلوچ قوم کی حساسیت کو پاکستانی فوج ایک ڈھال کے طورپر استعمال کرکے جہدکاروں کو آزادی کی جد و جہد ترک کرنے کیلئے ان کے خواتین کو نشانہ بنانے کی غلیظ حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ ایسے واقعات کی تعداد میں روز بروزاضافہ ہوتا جا رہاہے ۔

بی این ایم کے مرکزی سیکریٹری انفارمیشن نے کہاکہ بلوچ قوم ایک طویل تاریخ اورتہذیب کا مالک ہے جس میں عورت کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ بلوچ روایات میں خونی جنگوں میں عورتوں کی مداخلت اور دونوں فریقین کے درمیان جنگ بندی کیلئے آنے سے خونی جنگیں رک جاتی ہیں۔ جنگی حالات میں بھی عورتوں پر ہاتھ اٹھانا ایک معیوب اور قابل گرفت جرم ہے ،جسے کسی بھی صورت میں نہیں بخشا جاتا۔انتہاپسندانہ سوچ اور تنگ نظری سے کوسوں دوربلوچ قوم کا تاریخی سیکولر پس منظرآج بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد میں خواتین کے انتہائی اہم کردارسے عیاں ہے جو کسی بھی نظریے سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند رویے کے برعکس سیکولر رویے کی حامل ہے۔یہ تو قبضہ گیر یت کی دین ہے کہ بعض جگہ جنسی تفریق پیدا کی گئی ہے اور اس میں مزید وسعت لانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن بلوچ سماج اور سماجی ڈھانچہ اس بات کوثابت کرتا ہے کہ بلوچ سماج جنسی تفریق سے مبرا ایک سیکولر، وسیع النظر اورکشادہ ذہن کا مالک سماج ہے۔

انہوں نے کہاکہ قبضہ گیرپاکستان کے طویل قبضے اور استحصال نے بلوچ عورت کے لئے زندگی کو کھٹن اور پرخار بنادیاہے۔ بلوچ قومی تحریک کو کچلنے کے عمل میں بلوچ عورت پاکستان کا آسان حدف بن چکاہے۔ لہٰذا آج بلوچستان کے طول و عرض میں پاکستان کی افواج اور ریاستی سرپرستی میں چلنے والے ڈیتھ سکواڈز عورتوں پر ظلم کے پہاڑ توڑرہے ہیں ۔ آج ہزاروں ماؤں کے بیٹے شہید اور ہزاروں زندانوں میں مقید ہیں ۔بیٹوں کے کربناک انتظاراور اس درد کی حدت بلوچ ماں سے زیادہ شائد ہی کوئی جانتا ہو۔آج ہزاروں بلوچ عورتیں بیوہ ہو چکی ہیں۔ ہزاروں ایسے ہیں جن کے شریک حیات کئی سالوں سے پاکستان کے زندانوں میں بند ہیں اور وہ جس عذاب سے گزررہے ہیں اس کا احسا س صرف وہی کرسکتے ہیں جن پر یہ بیت رہی ہے۔ آج بلوچ بیٹیوں کی زندگیاں سڑکوں پر اور پریس کلبوں کے سامنے اپنے پیاروں کے بازیابی کے لئے جلسوں اوراحتجاجوں میں بسر ہورہی ہے۔ پاکستان کی فوج اور دوسرے ریاستی ادارے بلوچستان کے طول و عرض میں بلوچ خواتین کو تشدد اور درندگی کا نشانہ بنارہے ہیں۔ پاکستان کی درندگی سے آج لاکھوں خاندان اپنے ہی وطن میں ہجرت پر مجبورہو چکے ہیں۔ یہاں بھی سب سے زیادہ متاثر ہ عورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر بلوچ نیشنل موومنٹ عورتوں کے حقوق کے دعویدار وں کے سامنے یہ سوال ضروراٹھا تا ہے کہ وہ بلوچوں اور بالخصوص بلوچ عورتوں کی اس پرخار حالت پر کیونکر خاموش ہیں؟کیاان کی خاموشی عورتوں کے بارے ان کے بنیادی فرائض سے غفلت کا غماز نہیں ؟آج بلوچ قوم کے پاکستانی زندانوں میں قید اور پاکستانی فوج کے ہاتھوں ذہنی ،جسمانی اور جنسی تشدد سے دوچار بلوچ خواتین کے بارے میں عالمی اداروں کی خاموشی ان کے وجود پر سوالیہ نشان بن چکاہے ۔ آج بلوچ خواتین کسی بھی جنگ زدہ خطے سے زیادہ کربناک حالات سے دوچار ہیں لیکن آزاد میڈیا کے عدم موجودگی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں کی اپنے فرائض سے مجرمانہ غفلت سے پاکستان کوبلوچ خواتین کے خلاف جاری مظالم اور ان کی شدت میں اضافے کا موقع اور استثنیٰ فراہم کررہاہے۔ بلوچ نیشنل موومنٹ عالمی اداروں سے اپیل کرتاہے کہ بلوچ خواتین کی پاکستان کے ہاتھوں تشدد اور استحصال کے خلاف موثر اور عملی اقدام اٹھائیں ۔