بلوچ ، پشتون قومی تحریک اور نیشنلزم– نادر بلوچ

550

بلوچ ، پشتون قومی تحریک اور نیشنلزم

تحریر: نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ: کالم

غلامی کی ایک اور زنجیر ٹوٹنے والی ہے، آج دنیا بھر میں جہاں نیشنلزم اپنے پنجے گاڑ رہی ہے انڈیا، امریکہ، پولینڈ ، اسپین ، سمیت کئی ممالک نیشنلزم کی جانب لوٹ رہے ہیں۔ اس صدی اور آنے والے ہزاروں سالوں تک نیشنلزم ہی انسانیت کی بھلائی ثابت ہوگی۔ گلوبل ولیج کے نام پر چند لوگوں کے اکاونٹ اب نہیں بھریں گے بلکہ انسانیت اور انسانی حقوق، آزادی ہی کے زریعے ہی انسانیت کی بنیاد پر تعلقات قائم ہوں گے۔ ایسے دور میں بلوچ قوم کی ثابت قدمی اور بابا خیر بخش مری کی فکر نے بلوچ قومی تحریک کو آن اور پہچان دی ہے۔ وہیں پر خان باچا خان اور ولی خان کی سوچ نے پشتون قومی تحریک کو پہچان دی ہے۔ نیشنل ازم کی ابھار جہاں ایک خوش آئیند بات ہے، وہیں پر اس کی حفاظت کے لیئے بھی تمام مظلوم اقوام کو مل کر جہد کرنا ہوگا۔

آج بلوچ قوم پر ہونے والے مظالم کا احساس سب کو ہورہا ہے۔ سندھی اور مہاجر بھی اسی نسل کشی کے عزاب کو جھیل رہے ہیں۔ ریاست کی پالیسیاں ستر سالوں سے ان اقوام کے لیے ایک جیسی رہی ہیں۔ ان اقوام کو طوق غلامی پہنانے کے باوجود ان کو جینے کے حق سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔ بچوں سے لیکر بھوڑوں تک کو اس ظلم و جبر کے ذریعے صرف ایک ہی طبقے کی بالادستی کے لیئے غلامی اور استحصال کا شکار بنایا گیا ہے۔ ریاست نے ان اقوام کے لیے کچھ نہیں چھوڑا۔ زبان، ثقافت، تہذیب سب کو مسخ کرنے کے بعد اب انکے نوجوانوں، دانشوروں، سیاستدانوں، طالب علموں اور عوام کا قتل عام کرنا اس بربریت اور قبضہ گیریت کی واضح مثال ہیں۔

ان منصوبوں کو جاری و ساری رکھنے کے لیئے ریاست نے ایک تربیت یافتہ فوج اور کئی ایجنسیاں رکھی ہوئی ہے، جنکو نہ خوف خدا ہے اور نہ ہی انسانیت پر یقین۔ ستر کی دہای میں جو کچھ بنگلہ دیش میں کیا گیا، آج وہی کچھ بلوچ، پشتون اور سندھیوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ الگ الگ کر کے ریاست نے سب کو مارا ہے۔ صرف اور صرف پنجاب اور بالادست طبقے کے لیئے۔ مذہب اور محب الوطنی کے نام پر قبضہ گیریت کو دوام دینے کی کوشیش ستر سالوں سے جاری ہے۔

پاکستان بحثیت ریاست کھبی بھی جمہوری اور سیاسی جہد کے ذریعے سے محکوم قوموں کو حقوق دینے سے قاصر رہا ہے۔ یہاں پانی اور بجلی مانگنے کےلیئے بھی پہلے بندوق کی گولی کھانی پڑتی ہے۔ مشرقی پاکستان کا بنگلادیش بننے تک اور اس کے بعد تسلسل سے قبضہ گیریت کی سوچ نے یہاں بسنے والے قوموں کو تباہی کی قریب لاکر کھڑا کر دیا ہے۔

کرپشن قتل و غارتگری، ریاستی اداروں کا فرقہ واریت اور ہمسایہ ممالک میں دراندازی نے اس ملک کو ناکامی اور تباہی کے دہانے پر لاکھڑاکیا ہے۔ ایسے ملک کی نہ آئین ہوتی ہے، نہ ہی اس پر عمل درآمد ہوتی ہے۔ اس ملک میں یہ کہنا کہ ہم آئین کے اندر رہ کر جہد جہد کریں گے، تو یہ وقت کا ضیاع ہو گا اور ریاست کو مزید سازشی منصوبوں کا وقت فراہم کرے گا، جسکی پہلی کڑی ریاست کی جانب سے پشتون قومی تحریک کے رہنماوں کے خلاف غداری اور دہشت گردی کے مقدمات درج کرنے سے ہوا ہے۔

پاکستان ڈیورنڈ لائین پر باڑ لگا کر بلوچ اور پشتون قوم کی نسل کشی کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے باڑ کی صورت میں تقسیم کرو اور قتل کرو کی پالیسی اپنائی ہے۔ تاکہ افغانستان جیسے فطری اتحادی سے بلوچ قوم اور پشتونوں کو الگ رکھا جاسکے تاکہ انکے وسائل کو لوٹنے اور مزاحمتی سوچ کا خاتمہ کیا جاسکے۔ یہ اتنی خطرناک اور تباہ کن پالسیاں ہیں، جو ان اقوام کی غلامی کو مزید طول دینے کے لیے بنائی گئی ہیں، دوسری جانب سی پیک کے نام سے جاری سازشی منصوبہ صرف بلوچ قوم نہیں بلکہ پشتون، سندھی سب کو اقلیت اور معاشی تباہی کا شکار کرے گی۔ چین کی ڈیڈھ ارب آبادی ان اقوام کو انکی تہذیبوں کے ساتھ نگل لے گی۔ دونوں اقوام اپنے یکساں اور بنیادی مسائل کے خلاف جہد و جہد کریں۔

ریاستی پالسیوں کے باوجود مذہبی شدت پسندی کرپشن، لوٹ کھسوٹ سے پشتون اور بلوچ عوام کو نیشنلزم سے ہر ممکن دور رکھنے کے لیے ناکام کوشیش جاری ہیں۔ پارلیمانی سیاست کے ذریعے ان اقوام کو تقسیم در تقسیم سے دوچار کیا گیا ہے۔ لیکن اب ان پالیسوں سے مزید ان اقوام کو غلام نہیں رکھ سکتے۔ اب سیاسی رہنماوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپس میں بیٹھ کر ان دوریوں کو ختم کریں اور ریاستی چالوں کو سمجھیں۔

اس مملکتِ بے پرساں میں انسانیت ریاست کے ہاتھوں سسک رہی ہے۔ خون اور بارود کے زور پر ایک ایسے غیر فطری ریاست کو قائم رکھنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، جس کے ہاتھوں انسانیت بلک رہی ہے۔ یہ سب تب تک جاری رہے گی جب تک یہاں بسنے والی اقوام اپنے مستقبل کا فیصلہ نہیں کرتے۔ سندھ اور بلوچستان میں تحریک آذادی نیشنلزم کی بنیاد پر جاری ہے۔ اب وقت ہے کہ پشتون قوم بھی اپنے تاریخی حق آزادی کے لیے فیصلہ کرے اور اپنے آنے والی نسلوں کے لیے ظلم و جبر سے پاک معاشرہ تشکیل دیں۔ اس کے لیے سرخ انقلاب دور کے سیاسی قائدین اور کارکنوں کو اپنے نوجوانوں کو تیار کرنا ہوگا تاکہ دوسرے مظلوم اقوام سے مل کر اصولی اور فیصلہ کن معرکہ شروع کیا جا سکے۔ اب وقت آگیا ہے کہ بلوچ، سندھی اور پشتون مل کر پنجاب کو شکریہ کے ساتھ ہندوستان کو واپس لوٹا دیں بغیر کسی شکوہ کے اور اپنے لیئے ترقی اور تہذیب کے دروازے کھول دیں۔