پاکستان میں حکومتی سطح پر قائم قومی کمیشن برائے حقوق انسانی نے کہا ہے کہ گذشتہ 16 برسوں کے دوران بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے واقعات میں ہزارہ برادری کے 525 افراد جابحق اور734 زخمی ہوئے۔
پیر کو کوئٹہ میں نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس نے شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ہزارہ قبیلے کے بارے میں رپورٹ جاری کی ہے۔
رپورٹ میں بلوچستان میں مقیم ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کو درپیش صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
کمیشن کی رکن فضیلہ عالیانی نے کہا کہ ہزارہ قبیلے کے لوگ ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہیں اور ہزارہ افراد کی ایک بڑی تعداد ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ماری گئی اور زخمی ہوئی ہے۔
فضیلہ عالیانی نے بتایا کہ جب کمیشن نے ہزارہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ اور اس کے نتیجے میں ان کو درپیش واقعات کے بارے میں تحقیقات کا آغاز کیا تو بعض حلقوں کی جانب سے اس کی مخالفت بھی کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود کمیشن کے چیئرمین نے تحقیقات کا حکم دیا۔
کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ہزارہ افراد کی بڑی تعداد میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات سنہ 2000 کے بعد پیش آئے۔
رپورٹ میں 15ا گست 2001 سے 20 اکتوبر2017 تک ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے 46 واقعات کا ذکر کیا گیا ہے جن میں 525 افراد ہلاک اور 734زخمی ہوئے۔
تاہم ہزارہ تنظیموں کے مطابق جابحق اور زخمیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
فضیلہ عالیانی کہتی ہیں کہ قبیلے کے افراد اس وقت ایک ذہنی کرب میں مبتلا ہیں جن کو ہرممکن تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے جہاں ہزارہ افراد عدم تحفظ کا شکار ہیں وہاں ان کی تعلیم اور تجارت بھی متاثر ہوئی ہے جبکہ فضیلہ عالیانی کا کہنا تھا کہ ان افراد کی بحالی کے لیے ہرممکن اقدام کی ضرورت ہے ۔
کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اس صورتحال کے باعث ہزارہ افراد کی ایک بڑی تعداد کو اندرون پاکستان کے علاوہ بیرون ملک نقل مکانی بھی کرنی پڑی اور کوئٹہ ان کے لیے جیل کی مانند ہے جس سے ہر ایک کی نکلنے کی کوشش ہے۔
تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نقل مکانی کرنے والے افراد کی اپنی مشکلات ہیں۔ رپورٹ میں انڈونیشیا میں مقیم ایک ہزارہ فرد کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وہ چار سال سے وہاں مقیم ہیں لیکن ان کی حالت اطمینان بخش نہیں۔
رپورٹ میں جہاں ہزارہ افراد کی سیکورٹی کو بہتر بنانے کی سفارش کی گئی ہے وہاں ان کے اپنے علاقوں میں اعلیٰ تعلیمی سہولیات کے علاوہ دیگر سہولیات کی فراہمی کو بہتر بنانے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔
جب کمیشن کی اس رپورٹ پر ہزارہ قبیلے کی سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی کارکن حمیدہ ہزارہ سے پوچھا گیا تو ان کا یہ کہنا تھا کہ کمیشن کی رپورٹ میں بہت ساری باتوں کی نشاندہی کی گئی۔ انھوں نے بتایا کہ جو عناصر ہزارہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں ان کی گرفتاری نہیں ہوئی۔
جبکہ ہزارہ ایکشن کمیٹی کے چیئرمین لیاقت علی ہزارہ نے کمیشن کی کاوشوں پر اس کا شکریہ ادا کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ جب سپریم کورٹ سے امیدیں ختم ہوجائیں تو اس سے کیا امید رکھی جاسکتی ہے۔
اگرچہ رپورٹ میں میں ہزارہ افراد کو درپیش صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے تاہم سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ ہزارہ افراد کے تحفظ کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں جن کی وجہ سے ان کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ کمی آئی ہے۔