انتظار کب ختم ہوگا؟؟ – حمید بلوچ

491

انتظار کب ختم ہوگا؟؟

تحریر: حمید بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ کالم

بلوچستان سے بلوچ طالب علموں کا اغوا ہونا اور انکی مسخ شدہ لاشوں کا ویرانوں جنگلوں اور بیابانوں سے برآمد ہونا کوئی نئی بات نہیں ایسے واقعات ہر روز بلوچستان کے مختلف علاقوں میں رونماہوتے ہیں حال ہی میں بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے مرکزی رہنما کو آٹھ دیگر طالب علموں کے ساتھ لاپتہ کردیا گیا اسکے بعد 15 نومبر 2017 کو بی ایس او آزاد کے مرکزی جنرل سیکرٹری ثنا اللہ بلوچ کو حسام بلوچ، نصیر بلوچ اور رفیق بلوچ کے ہمراہ کراچی سے اٹھا کر لاپتہ کیا گیا جن کا تاحال کچھ پتہ نہیں نہ ہی انکی ایف آئی آر کاٹی گئی اور نہ ہی اہلخانہ کو انکے بارے میں کوئی اطلاع فراہم کی گئی.

بلوچستان جیسے پسماندہ علاقے کے طالب علموں پر یہ ظلم کب بند ہوگا ؟ کب بلوچستان کے حکمران اور ریاست پاکستان کے ایجنٹ ہوش میں آئیں گے کہ پاکستان ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے جو ہمارے مستقبل کے معماروں کو اغوا کرکے لاپتہ کردیتا ہے اور انکی لاشوں کو پھینک دیتا ہے؟کب انسانی حقوق کے دعوی دار اور موم بتی مافیا بلوچ طلبہ کی اغوا نما گرفتاری کے خلاف سراپا احتجاج بن جائیں گے؟ کب بلوچستان کے طلبہ کی ناجائز گرفتاری بند ہوگی؟ اور کب ان ماوں اور بہنوں کا اپنے بچوں اور بھائیوں کے لئے انتظار ختم ہوگا جنہیں پاکستانی خفیہ اداروں نے اٹھا کر لاپتہ کردیا ہے؟

اگر بلوچستان کی تاریخ کے گزشتہ 10 سالوں پر نظر دوڑائیں تو پاکستانی ریاست کے مظالم میں کافی حد تک اضافہ ہوا ہے اور اس ظلم کا شکار ہر طبقہ فکر ہوا ہے جن میں ڈاکٹر، وکیل ، استاد ، مزدور ، کسان اور خاص کر بلوچ طالب علم پاکستانی عتاب کا زیادہ شکار رہے ہیں۔ اس 10 سال کے عرصے میں سینکڑوں بلوچ طالب علم اغوا ہوئے جن کی لاشیں بر آمد ہوئیں اور سینکڑوں بلوچ طالب علم پاکستانی عقوبت خانوں میں اذیتیں برداشت کر رہے ہیں . بلوچ طالب علموں کا اغوا ہونا پاکستانی شکست کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ وقت کا ہر سامراج طالب علموں کی طاقت اور انکی شعور سے خوفزدہ رہا ہے اور قوم کی اسی سافٹ طاقت کو ختم کرنے کے لئے وہ ہر اوچھے ہتکھنڈے پر اتر آتا ہے. دنیا میں ہر جگہ طالب علم اس ظلم کا شکار رہے ارجنٹائن اور میکسیکو اسکی اہم مثالیں ہیں جن کی یاد میں اقوام متحدہ لاپتہ افراد کا عالمی دن مناتا ہے اور اس اہم دن ان بچوں کی مائیں اپنے بچوں کی تصویریں لئے سڑکوں پر اس امید میں نکلتی ہیں کہ شاید ان کے جگر گوشوں کا کچھ پتہ چلے اور وہ اپنی زندگی کے آخری لحمات سکون سے گزار سکیں.

انتظار موت سے بھی بد تر عمل ہے اور اسی کرب کا سامنا بلوچ ماوں اور بہنوں کو بھی کرنا پڑرہا ہے جو گزشتہ کئی سالوں سے اپنی بچوں کی انتظار میں راہیں تک رہی ہیں کہ کب انکے جگر گوشے اپنے گھروں کو لوٹ آئیں گے.

بلوچستان سے بلوچ طلبہ کی اغوا نما گرفتاری میں حالیہ اضافہ پاکستانی سپریم کورٹ اور انسانی حقوق کی تنظیموں اور موم بتی مافیا اور دیگر اعلی اداروں کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے کہاں ہے وہ انسانی حقوق کے دعوی دار جو انسانیت کی فلاح کے دعوی اور اس پر لمبی چوڑی تقریرں تو روز کرتے ہیں لیکن عملی طور پر ان کا کردار ریاستی اداروں کی ہی طرح ہے جو بلوچ کو انسان تصور ہی نہیں کرتے اور ان لوگوں میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ بلوچ طالب علموں کی گرفتاری پر آواز اٹھائیں انکی یہ خاموشی پاکستانی کی بلوچستان میں دہشت گردی کو ہوا دی رہی ہے اور اس خاموشی نے ان اغوا کاروں کو اتنا دلیر اور طاقت ور بنادیا ہے کہ وہ کبھی اور کہیں بھی چھاپہ مار کر بلوچ طالب علموں کو اغوا کرلیتے ہیں۔

20 نومبر 2017 کو صغیر بلوچ اور 4 مارچ 2018 کو ڈاکٹر سعید بلوچ کو بلوچ طالب علم ہونے کی پاداش میں یونیورسٹی اور کالج سے اٹھا کر لاپتہ کردیا گیا. کیا قصور تھا ان طالب علموں کا کہ انہیں یوں اٹھا کر لاپتہ کیا گیا ڈاکٹر سعید بلوچ اور صغیر بلوچ سے ایسا کونسا گناہ سرزد ہوا تھا کہ انہیں یوں دہشتگردوں کی طرح اٹھا کر لاپتہ کرکے ان کے خاندان کو انتظار جیسے کرب میں مبتلا کردیا گیا اگر یہ معصوم طالب علم گناہ گار ہیں تو انہیں عدالت میں پیش کرکے جرم ثابت ہونے پر قانون کے مطابق سزا دی جائے یوں طالب علموں کو اغوا کرنا انسانیت کی توہین اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کو اپنے پاوں تلے روندنے کےمترادف ہے.

بلوچ طالب علم ہی بلوچ قوم کے مستقبل کے معمار ہیں اور بلوچستان میں انکی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں اور بلوچ طلبہ کو پاکستانی درندگی سے محفوظ رکھنے کا واحد حل بلوچ طلبہ کی یکجہتی ہے جو اپنے ماوں بہنوں اور دوستوں کے انتظار کو ختم کراسکتی ہے اگر بلوچ طلبہ خود کو پاکستانی دہشتگردی سے محفوظ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ایک پلیٹ فارم میں متحد ہونا ہوگا اوروہ پلیٹ فارم بی ایس او آزاد ہے جو پاکستانی مظالم اور بلوچ قومی آزادی و بلوچ معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم عمل ہے اور اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں کہ ہم پاکستانی مظالم کو روک سکیں اور اس انتظار کو ختم کریں جو گزشتہ 10 سالوں سے ہماری مائیں بہنیں اور دوست کررہے ہیں یہ انتظار اسوقت ختم ہوگا جب ہم آزاد ہونگے اپنی سرزمین کے مالک خود ہونگے آزادی کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں کہ ہم انتظار جیسے کرب کو ختم کرسکیں.