امریکی دفتر خارجہ کا بیان اور ہماری ناکام سفارت کاری – حکیم واڈیلہ

488

امریکی دفتر خارجہ کا بیان اور ہماری ناکام سفارت کاری

تحریر: حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ

پاکستان کے بابت امریکی پالیسیاں، ٹرمپ انتظامیہ کے حکومت میں آنے سے لیکر ابتک کافی سخت اور نفرت انگیز رہی ہیں، جسکی وجہ پاکستانی فوج اور سیاست دانوں کے مکر و فریب ہیں۔ امریکہ سے ڈالرز لینا اور دوسری طرف طالبان اور دوسرے مذہبی دہشتگردوں کی پرورش کرنا اور انہیں اپنے مقصد کی خاطر استعمال کرنے جیسے واقعات ہیں۔ امریکہ پاکستان پر اس لیے بھی قطعی طور پر بھروسہ نہیں کرتا کہ امریکہ کا سب سے بڑا دشمن 9/11 کا ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن بھی پاکستانی آرمی کے دیئے گئے کمپاونڈ سے برآمد ہوا تھا۔

امریکہ کو پاکستان سے نفرت کرنے کیلئے یا پاکستان کو سبق سکھانے کیلئے کسی بھی دوسرے مظلوم قوم اور طبقے کی حمایت کرنے کی ضرورت نہیں، جس کے دکھوں کا مداوا کرنے کی خاطر یا پھر اس قوم اور طبقہ کو آزادی دلانے کی خواہش دل میں لیے امریکہ اپنی زمینی، بحری اور آسمانی فوجیں پاکستان کی جانب روانہ کردےگا یا دنیا کے ہر ایک پلیٹ فارم پر اس کارڈ کو پاکستان کیخلاف استعمال کرے گا۔ امریکی سیاست وہاں کے تھنک ٹینکس، عسکری و سیاسی قیادت کی اولین ترجیحات امریکی مفادات ہیں۔ اور ان مفادات کو تحفظ فراہم کرنے یا ان مفادات کو حاصل کرنے کیلئے امریکہ وہی رویہ اختیار کریگا جیسا کہ انہوں نے اسامہ بن لادن کے ساتھ کیا تھا۔

امریکی دفتر خارجہ کی سینئر اہل کار ایلس ویلز نے وی او اے کو دیئے گئے انٹرویو میں بلوچستان کی آزادی کے تحریک کے بابت اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہم سختی سے پاکستان کی علاقائی سلامتی کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم بلوچ دراندازی کے حق میں نہیں ہیں؛ اور ناہی کسی ایسی تحریک کی تائید کرتے ہیں۔ ہمارا پیغام یہی ہے کہ اگر کوئی بھی دہشت گرد گروہ خطے میں کسی بھی ملک کے خلاف پرتشدد کاروائی کرے گا تو اس کا مقابلہ کرنا ہوگا‘‘۔

حالانکہ وہ اپنے دیے گئے انٹرویو میں پاکستان کی دہشتگردی کیخلاف کارکردگی پر خوش نہیں تھیں، تو کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ امریکہ اپنے ہی مفادات کو نظر انداز کرکے پاکستان کی سالمیت کا حامی بن رہا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ اس خطے میں ابھی تک پاکستان کے بعد کوئی ایسی طاقت یا متحد قوم نہیں دیکھ رہا، جو نہ صرف اپنے بلکہ بین الاقوامی قوتوں کے مفادات کا بھی تحفظ کرسکتی ہو اور ساتھ ہی ساتھ دہشتگردی کیخلاف جاری جنگ میں بھی ایمان دارانہ طور پر کردار ادا کر سکیں۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم اب تک ایک قوم کی حیثیت سے خود کو دنیا کے سامنے منوانے میں ناکام رہے ہیں۔ ہم نے بلوچستان اور بلوچستان سے باہر اپنی اپنی دکانیں اور برانچیں کھول رکھی ہیں، جہاں سے ہم اپنا پروڈکٹ بیچنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ بلوچستان سے باہر خاص کر یورپی اور امریکی ممالک میں جتنے بھی سفارت کار موجود ہیں، جن میں سے کچھ لیڈر ہیں اور کچھ کارکنان، کچھ انسانی حقوق کے نمائندے ہیں تو کچھ طلبہ تنظیموں کے راہنما و کارکنان۔ اور ہر ایک بلوچ قومی مسئلے پر الگ طریقے سے اجاگر کرنے کی انوکھی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے دنیا آج تک بلوچ قومی سیاست کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔

اگر اس ماحول میں ایک آدھ سینیٹر ہمارے مسئلوں کو سُننے، سمجھنے یا ہمدردی جتانے کی کوشش کرنے کی نیت سے آتا ہے تو ہم انکے سامنے بیٹھ کر بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، خود کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں، اور دوسروں کی کردار کشی اور انکے بابت غلط پیغام دیتے ہیں اور اگر کہیں غلطی سے دوسرا سفارت کار انہی میں سے کسی سے کہیں ملاقات کرے تو وہ بھی انہیں باتوں کو بس نام اور کردار بدل کر بیان کرتا ہے۔ اب ایسے ماحول میں جہاں حالت غلامی اور مجبوری میں دنیا آپکی انا، بچکانہ سیاست، گھریلو معاملات کو ہوٹلوں کی زینت بنانے جیسی سوچ رکھنے والوں کو کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں لیگی۔

اگر ہم سنجیدگی اور ایمانداری سے چاہتے ہیں کہ دنیا ہماری مدد کو آئے اور بلوچستان بابت ایک مثبت اور دوستانہ پالیسی اپنا کر بلوچستان میں جاری نسل کُشی پر پاکستانی فوج اور حکمرانوں کا عالمی عدالت میں احتساب کریں۔ تو سب سے پہلے ہمیں خود کو دنیا کے سامنے ایک مہذب قوم کی حیثیت سے پیش کرنا ہوگا اور دنیا کو یہ باور کرانا ہوگا کہ بلوچ اس ریجن میں عالمی امن کا ضامن ہوسکتا ہے۔