اتحاد قومی ضرورت یا مجبوری؟ – مراد بلوچ

386

اتحاد قومی ضرورت یا مجبوری؟

مراد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

آج کل بلوچ آزادی پسند مزاحمتی حلقوں میں اتحاد کے حوالے سے خاصی بحث چل رہی ھے۔ بی ایل ایف اور بی ایل اے کے ایک دھڑے کےساتھ اتحاد اور اشتراک عمل میں آیا ہے اور اس کے کچھ مہینے بعد لشکر بلوچستان بی آر اے اور یوبی اے کے بیچ اتحاد عمل میں آیا۔ یہ انتہائی مثبت عمل ہے اور قومی تحریک کیلئے نیک شگون ہے، لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس چھوٹی قوم میں دو اتحاد کیا معنی رکھتی ہیں؟ اگر ہم اپنے قوم کی بھلائی کیلئے، اپنی قوم کی خوشحالی کیلئے یہ سب کچھ کر رہیں تو یہ انتہائی خوش آئیند عمل ہے۔ کیونکہ یہ سب بلوچ قوم پہلے دیکھ چکا ہے۔ اس سے پہلے ایک اتحاد بلوچ نیشنل فرنٹ کی شکل موجود تھا۔ جس بی این ایف کو عظیم رہبر غلام محمد بلوچ، سنگت ثناء بلوچ، جلیل ریکی اور دیگر دوستوں کی بے لوث قربانیوں کی وجہ سے بلوچ عوام میں پذیرائی ملی۔

بی این ایف ایگ مضبوط اتحاد کی شکل میں متحرک رہا اور بلوچستان کے اکثر چھوٹے بڑے شہروں میں بہت سے جلسے اور جلوس ہوئے، بی این ایف کی پلیٹ فارم پر تقریباً تمام آزادی پسند جمع ہوئے لیکن وہ اتحاد دیر پا ثابت نا ہو سکی، اسکے ٹوٹنے کا اسباب آج تک کسی نے بھی واضح نہیں کیئے۔

جب پاکستانی ریاست نے غلام محمد اور سنگت ثناءکو شہید کردیا ۔ تو ان رہنماؤں کے شہادت کے بعد بی این ایف روزانہ مضبوط ہونے کے بجائے کمزور ہوتا چلاگیا اور صرف برائے نام کا رہ چکا تھا۔ وہیں اتحاد کو پارہ پارہ کرنے میں بی آر پی نے نا شہید ثناء کی قربانیوں کی قدر کی نا شہید جلیل ریکی کی اور اس اتحاد کو بی آر پی نے اختر مینگل نامی پاکستانی اسٹبلیشمنٹ کی چاپلوس کی خاطر توڑدیا اور اس اتحاد سے علیحدگی اختیار کی۔

آج تک قوم کے سامنے اتحاد نے یکجہتی کے بجائے افرتفری پہلائی ہے۔ آج تک وہ اتحاد کے ٹوٹنے کے اسباب واضح نہ ہوسکے کے اسی آپسی رساکشی کے وجہ سے کسی کو معلوم نہیں کے کون غلط تھا اور کون صحیح۔ یہاں قوم اور قومی تحریک کے بجائے ہر کوئی اپنی اپنی گرفت کو مضبوط کرنے میں لگی ہے۔ ان سب سے میں ایک سوال کرتا ہوں پارٹیاں قوم کیلئے ہوتی ہیں، اگر قوم نا رہے تو آپ کی پارٹی کسے کام کی ہوگی؟

اتحاد قومی تحریکوں کیلئے انتہائی ضروری ہے لیکن اتحاد کے کچھ قوائد اور ضوابط ہوتے ہیں۔ وہ قوم کے سامنے واضع ہوں اگر کل کوئی بھی پارٹی یا شخصیت اتحاد سے انحراف کرے تو انہیں قوم سزا دے۔ اتحاد کیلئے ایک سازگار ماحول کی ضرورت ہے۔ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ یہاں ان چیزوں میں سے ایک چیز کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ پاکستانی سیاست دانوں کی طرح الیکش نزدیک ہوتے ہیں۔ تو پارلیمانی پارٹیوں کی اتحادیں شروع ہوجاتے ہیں، جب الیکشن ختم ہوتے ہیں تو بعد وہی ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کی سیاست شروع ہو جاتی ہے۔ ہماری سیاسی پارٹیوں میں جب ورکر یا بیرونی قوت پریشر ڈالتے ہیں، تو ایک لفظی اتحاد جوڑتے ہیں، جب پریشر تھم جاتا ہے۔ تو اُسی کے ساتھ اتحاد بھی تھم جاتاہے۔

ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ ایک انقلابی معیار کی اتحاد کی ضرورت ہے۔ نہ کہ مجبوری کی اتحاد ۔ ایک ایسا مضبوط اتحاد، جس سے ہم اپنی قوم کو آذادی دلاسکیں۔ ہماری ٹوٹی ہوئی اتحادوں سے قوم میں مایوسی اور نا امیدی کے علاوہ اور کچھ حاصل نا ہوگا۔