آؤ دلجان سے ملتے ہیں __ لشکر خان زہری

571

آؤ دلجان سے ملتے ہیں

تحریر۔۔ لشکر خان زہری

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

دلجان ضیاء بلوچ ایک داستان اور ایک مکمل کتاب ہے، آؤ اسے ڈھونڈیں وہ کہیں کسی نوجوان کے ہاتھوں میں تھما ہوا ہوگا، اسے درس دینے کے لیئے۔ ضیاء ایک درس ہے، چلو! اسے فکر کے محفلوں میں تلاش کرتے ہیں، اس استاد کو جس نے سبق دیا قربانی کا، آجوئی کا، صبر کا، مسکرانے کا، فنا ہوجانے کا، جہد مسلسل کا. ضیاء ایک مسکان بھی ہے، کہیں کسی مظلوم کی ہونٹوں پے بکھرا ہوا ہوگا۔ اس خیال کے ساتھ کہ اس شام کے بعد خوبصورت سویرا بس میرا ہی ہوگا. وہاں کوئی تکلیف دہ عمل نہ ہوگی، وہ دشت سرسبز، لہلہاتی، گنگناتی، میرے نغموں کو محسوس کرتی ہوگی کیونکہ سارے دکھ تکلیف تو ضیاء نے اپنے مسکان میں دفن کرنا سیکھایا تھا۔ اسنے سیکھایا تھا کہ کچھ بھی تکلیف دہ نہیں غلامی کی اِک شام سے بڑھ کر، اس ناسور ریاست کے ظلم سے زیادہ کچھ بھی خطرناک نہیں، آزادی کے سپنوں کے مرجانے سے بدتر کچھ بھی نہیں۔

آو! ضیاء کو تلاش کرتے ہیں مظلوم کے رخسار پر بہتے آنسوؤں میں، جو اپنے خوبرو لخت جگروں کو کندھا دے کر نم آنکھوں میں امید لیئے جی رہے ہونگے کہ جس صبح کا وعدہ کرکے ضیاء امر ہوگیا وہ صبح ضرور آئے گی. کیونکہ ہر صبح ضیاء چادر کندھے پر ڈال کر نکل جایا کرتا تھا، ہمیں سنبھالنے، نئے سنگتوں کو سمجھانے، انکو طریقہ کار بتانے، انکو حوصلہ بخشنے، ہمیں نئی حکمت عملیاں سنانے۔

ضیاء سوچ کے طرح ہر سمت پھلا ہوا تھا، جو تمہارے ہر ایک مشکل کو بخوبی بھانپ لیتا تھا، پھر بنا بتائے اسکا حل تلاش کرکے تمہیں جانے انجانے میں اس رستے پر چلاتا، جہاں سے تم ذاتی مشکلوں سے بھی نکل جاتے تھے۔ وہ قومی خدمت کے ساتھ ساتھ سنگتوں کے ذاتی مشکلات و مسائل کا بخوبی حل نکالنے کا ہنر رکھتا تھا۔

ضیاء کو تلاش کرتے ہیں بولان کے برفیلی پہاڑوں پر، جہاں کی یخ بستہ ہواوں اور کپکپاتی سرد راتوں میں وہ چاند کو تکتے ہوئے اسکے غرور پر لکھ رہا ہوگا۔ ضیاء کو تلاش کرتے ہیں اس چاند میں، جس کے غرور سے ضیاء کا حوصلہ و جذبہ بڑا تھا، جس نے چاند کو بھی دیکھا دیا کہ ہم آشفتہ سر اپنے وطن کی محبت میں مگن اس قدر چمک چھوڑ جاتے ہیں کہ گھپ اندھیرے میں بھی ہمارے لہو کی خوشبو مسافروں کے راہ کا تعین کرتا رہتا ہے اور وہ راہ نہیں بٹھکتے۔

یہ لہو جہاں بھی بہتا ہے صدیوں تک اپنی چھاپ چھوڑ جاتا ہے، وطن کے چاہ میں جو لہو بہے اسے وطن کی ہوا اور وہ مٹی اپنی امانت جان کر آنے والے نسلوں تک پہنچا دیتی ہے. وطن کا اپنے بیٹوں سے یہی وعدہ ہوتا ہے، جب وطن کی پکار پر لبیک کہنے والا بیٹا، اپنے جان سے گذر جاتا ہے، اسکے بعد کی زندگی اسے یہاں کی مٹی بخشتی ہے۔

ضیاء نورالحق کے ساتھ بندوق تھامے دشمن پر گولیاں برساتا ہوا، اپنے حصے کا جنگ لڑتے ہوئے یہ یقین کر رہا ہوگا کہ ان دوستوں کے ساتھ گذرا یہ آخری لمحہ زندگی کے تمام لمحوں سے خوبصورت ہے۔

آؤ! تلاش کریں، ضیاء کو نورالحق کی محفل میں زہری کے میدان میں دھول اٹھتے مٹی میں نقاب باندھے کسی نئے نوجوان کو قومی جہد و گوریلا بننے کا سبق دے رہے ہونگے. کچھ قریب آؤ چلتے ہیں بارگ کے میٹھی آواز میں قہقہے سنتے ہیں، ضیاء کی مہربان، پر محبت آنکھوں کا دیدار کرتے ہیں۔

چلو انکو تلاش کرتے ہیں، ان گونجتی گولیوں کی آواز میں جو بولان سے چل کر زہری میں گونجتی ہیں، اس بندوق کے لبلبی میں جو آجوئی کے گیت گنگناتی رہتی ہے، وہ جو اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقتور دشمن کو ناکام بنا کر چلے گئے، وہ جو سوئے ہوئے قوم کو جگاتے جگاتے ہمیشہ کے لیے امر ہوچلے. وہ جو وطن کے حلالی فرزند ہیں، جنہوں نے کئی مہینے بھوک، بیماری، اپنوں سے دور، ہر فون کال پر مسکرا کر کہتے ہونگے، سب ٹیھک ہیں۔۔۔ کسی چیز کی کمی نہیں۔۔۔۔ بس تھوڑی سی سردی ہے۔۔۔۔ پر کچھ موٹے کمبل موجود ہیں۔۔۔کبھی گرمی کی تپش بڑھ جاتی ہے، پر میرے کاندھوں پر مشکیزہ ہمیشہ رہتا ہے۔۔۔۔۔ یاد تو آتے ہو، پر سکون ملتا ہے یہی فون پر رابطہ ہی کافی ہے۔۔۔۔۔

ضیاء اور نورالحق کو تلاش کرتے ہیں، سیاست کے حسین معنوں میں، جنگ کے حقیقی کرداروں میں، مشکلات کا مسکرا کر سامنا کرنے والوں میں، بھوک میں بھی تسلی دینے والوں میں، سر کی پروا نہ کرنے والوں میں، تھکاوٹ سے چور مگر مسکرا کر سب ٹھیک ہیں کہنے والوں میں، ناکامی کو سرخ آنکھ دیکھانے والو میں، موت کو غلامی پر ترجیح دینے والوں میں، وہ ضرور ملیں گے۔

آؤ! میرے ساتھ انکو تلاش کریں، جو ہمیں تلاش کرکے، اس قدر تراش کر چلے گئے، کہ انکے دیئے ہوئے رستے پر چل کر کامیابی کی امید لیئے، انکے ہمگام ہونے کا فخر کرتے ہیں۔

آؤ! تلاش کرتے ہیں انکو انقلاب جدوجہد آخری فتح تک کے نعروں میں، کہ وہ فتح یاب لوگ ہیں، جنکا دین و دھرم اور ایمان آزاد سماج، آزاد انسان و انسانیت ہے۔

انکو تلاش کرنے چلو میرے ساتھ، ملینگے وہ ضرور کسی پہاڑی پر درخت کے سائے میں بیٹھے ہمارے انتظار میں، مشکیزے میں پانی بھر کر ہماری راہ تکتے ہونگے، اس یقین کے ساتھ کہ انکے جہد مسلسل کے ساتھ ساتھ انکا بہا ہوا لہو کس قدر لوگوں کو متاثر کرکے اپنے مقصد سے آگاہ کر چکا ہوگا۔

آؤ! چلتے ہیں، وہ ضرور ملغوے کے چوٹی سے تراسانی دشت کو دیکھ رہے ہونگے، جہاں دشمن کو ناکام بنا کر اپنے ساتھیوں کو کامیابی کا رستہ دکھا کر چلے گئے۔ مولہ کے پہاڑوں پر چلتے ہیں، بابو نوروز کے قافلے کا سپاہی حئی و امتیاز کے ساتھ، انہی پہاڑوں میں پھر رہے ہونگے، مجنوں کی طرح اپنے لوگوں کو اپنے غلامی کی داستان سنانے، یہی قریب میر گھٹ کے پہاڑوں میں شہید زکریا کے ساتھ شہید یاسین بھی بابو کے پہلو میں بیٹے اسے اپنے زمانے کے قصے سنا رہے ہونگے مجید سوئم مشکیزے میں پانی بھر کر رات کو سفر کی تیاریوں میں مصروف ہوگا۔

آؤ! چلیں پارود کے ریتیلی پہاڑیوں پر، شور کے سرد راتوں میں پھلین امیر کے دیدار کرلیں، نثار عرف میرل کی خوبصورت شاعری کے آستانے میں بیٹھ کر شہید چاوید کے ہنسا دینے والے باتوں سے لطف اندوز ہوجائیں، عرفان عرف صدام کے ہمراہ سنگتوں سے انکی داستانیں سن کر زیبا سلیمان عرف علی کے برادرانہ گفتگو کا اختتام صبح تک نہ ہو پائے۔

آو! ان عظیم لوگوں سے ملنے جنکا زکر ضیاء اپنے ہر محفل میں کرتا رہا ہے، انکو دیکھنے ضیاء کے زبانی چلتے ہیں، آؤ انکو تلاش کریں، یہ خوبصورت محفل ضیاء و نورالحق کے قافلے کا شیوا ہیں، جو موت تک کے لمحوں میں مسکرا کر فنا ہونے کا ہنر رکھتے ہیں۔ آؤ چلتے ہیں ان نرمزاروں کے رستے پر جس کا نشان لہو کے قطروں سے سینچا گیا ہے۔ لہو کے اس مہکتی خوشبو کو محسوس کرو، بارگ و ضیاء آج بھی خاران و زہری کے میدان، مکان، باغیوں میں کسی اور دلجان و بارگ کو عمل کا حصہ بنانے میں مگن دیکھائی دینگے، یہ کہتے ہوئے مسکرا کر اٹھ جائیں گے کہ
یا تو پہاڑ ٹوٹے گا۔۔۔۔۔۔ یا پھر سر ٹوٹے گا
پیچھے ہٹنا تھک جانا ہار ماننا اب ناممکن ہے

واقعی میں ضیاء ہار ماننے والوں میں سے ہے ہی نہیں، ان باتوں کا یقین مجھے آج سے نہیں شروع دن سے ہی تھا جب سے میں ضیاء کے بدولت اس کارواں کا حصہ بنا، نہ جانے کیوں کیسے ضیاء مجھ پر مہربان ہوکر، ایک بھائی، مہربان سنگت بن کر آیا، ہر نشیب فراز پر انگلی تھامے، حوصلہ دیتا رہتا، ابھی اور سفر سنگت تھوڑا اور حوصلہ کرو، یقین کرو کچھ مشکل نہیں، بس اس بات کو مان کر چلو یا پہاڑ ٹوٹے گا یا سر کوئی تو حل ہوگا۔

آزادی یا شہادت ہمارے رستے کا منزل ان ہی دو پڑاوں میں سے ایک پر ہے، بس پھر کیا تھا، چل پڑا ہوں ضیاء کے ساتھ۔ جس کا ساتھ خون کے کئی رشتوں سے مضبوط تر ہے۔ جس نے خود سے ہٹ کر، خود کے مفاد سے ہٹ کر، اپنے ذات سے ہٹ کر سوچنا سیکھایا۔ جس نے سیکھایا چلو مسلسل چلو، سب کو ساتھ لیکر چلو، ہماری کامیابی اسی میں ہے کہ ہم اس وقت بھی لڑیں جب ہم اکیلے رہ جائیں، ہم اس وقت بھی آگے بڑھیں، جب کوئی ہم پربھروسہ نا کرے۔

میں نے عہد کیا تھا، آج بھی اسی پر ڈٹا ہوں کہ ضیاء جس نے مجھ جیسے کمزور سوچ، کم ہمت والے انسان، کو سبق در سبق دیتا رہا، ہمت بڑھاتا رہا، حوصلہ بخشتا رہا، اس امید کے ساتھ کے ہم ساتھ مل کر دشمن سے لڑتے رہینگے، اس آخری گولی تک جو ہم نے میگزین سے الگ رکھا ہوا ہے۔

ضیاء آپ سکھا کر چلے گئے، کیسے کامیاب زندگی جی کر اپنا من چاہا موت چنتے ہیں، امیرے کارواں کے ساتھی، ضیاء ہمارا ذکر کرنا اور بتانا کہ یہ شمع جلتی رہے گی، شب کے آخری پہر تک۔

ضیاء آپ کے لمحہ بھر کے گفتگو جتنا اہمیت نہیں ان الفاظ میں، ایک ادنیٰ شاگرد بس اپنے بساط کے مطابق اتنا ہی بیان کر سکا، آپ ہوتے تو اور سیکھنے کو ملتا زندگی میں، جس نے امتحانوں کے پرچوں کے بغیر کچھ بھی نہیں لکھا ہو، اسے پہلی بار اتنا لکھنے پر آپ ہی نے سکھایا ہے۔ آپ سے محبت کی داستان لیکر اب آخری سانس تک لکھتا رہونگا، بندوق کے گرج کے ساتھ۔۔