قومی آزادی کی جدوجہدمیں تنظیم کی ضرورت قومی تحریک کے تناظر میں – واحدقمبربلوچ

1777

بلوچ قومی تحریک آزادی میں ایک سپاہی کی حیثیت سے میں نے ایک طویل مسافت طے کی ہے۔ اس دوران میں نے تحریک میں بہت سے نشیب و فراز کامشاہدہ کیاہے۔ پہلی بار کوشش کررہاہوں کہ تحریک پر ایک طائرانہ نظرڈالنے کے ساتھ ساتھ تحریک کے باربار تسلسل ٹوٹنے کے بنیادی وجوہات اختصارکے ساتھ پیش کروں۔

قوم ایک وحدت کا نام ہے جس میں لوگوں کا بہت بڑا گروہ جن کا کسی سرزمین سے وابستگی ہو اور تمام لوگ جغرفیائی یا معاشی مفادات سے مشترک ہوں۔ اس اشتراک عمل کو میں’قوم‘سمجھتاہوں۔ بلوچ بھی ایک قوم کی حیثیت رکھتی ہے جو ہزاروں سال ایرانی پلیٹو میں اپنی موجودگی کا احسا س تاریخی حوالے سے دلاتی رہی ہے۔ بقول ڈاکٹر نصیر دشتی ’’بلوچ قوم سات ہزارسال سے اس خطے میں آباد ہے‘‘۔ یہ خطہ اپنی ذرخیزی اورتزویراتی اہمیت کی وجہ سے ہمیشہ غاصبین کی توجہ کا مرکز رہاہے اورآج بھی صورت حال ماضی سے زیادہ مختلف نہیں ہے لیکن بلوچ قوم کا اپنی وجود اور اپنی تشخص سے وابستگی اس بات کا غمازہے کہ بلوچ قوم کو مٹانے میں تمام قبضہ گیروں کی طرح پاکستان بھی ناکام رہے گا اوربلوچ اپنے تاریخی فریضے کی ادائیگی میں سرخ رو ہوگا ۔

آج کی گفتگومیں ہم تاریخ پر بحث کرنے کے بجائے بلوچوں کی قومی آزادی کی جدوجہدپر اپنے خیالات کا اظہارکریں گے جوکہ میرا بنیادی موضوع بحث ہے ۔یہ تاریخی صداقت ہے کہ بلوچ قبائلیت میں منقسم قوم رہی ہے۔ وہ ہرحملہ آور کے خلاف قبائلی شکل و صورت میں نبردآزما رہے ہیں۔ انگریزوں کے خلاف ہماری جنگ قبائلی بنیاد پر ہوئی ۔انگریزوں کے خلاف جتنی بھی جنگیں لڑی گئیں جن کا آغاز خان مہراب خان کی شہادت سے ہوتا ہے، جنہوں نے قبضہ گیریت کے خلاف سرتسلیم خم کرنے کے بجائے انگریزی فو ج کا مقابلہ کیا اوراپنے ساتھیوں کے ہمراہ شہیدہوئے۔ اسی طرح مری قبائل اپنے علاقے میں اپنے زورِ بازو پر انگریزکے خلاف لڑتے رہے۔کیچ مکران میں بلوچ خان نوشیروانی انگریزوں کے خلاف لڑتا ہوا ’’گوک پروش ‘‘ کے میدان میں شہید ہوئے ۔جھالاوان میں بھی مزاحمت ہوئی مگر صورت قبائلی رہی۔ یہاں تک ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس دورکی مناسبت میں بلوچ سماج کی ہیئت قبائلی تھی اور بلوچ قبائلی نظم میں زیادہ منظم تھے لیکن ہماری جدید تاریخ جو بلوچ وطن پر پاکستان کے قبضے سے شروع ہوتاہے اس دورمیں بھی بلوچوں میں مرکزیت کی کمی تھی۔ پاکستان کے خلاف جتنے مزاحمتی دور گزرے ہیں سب کے سب قبائلی سرداروں یاقبائلی شخصیات کے ماتحت ہوئی ہیں۔ ان جنگوں میں قبائلیت کا جوش و جذبہ زیادہ تھا۔ پاکستان بننے کے بعد پاکستان نے قلات پر حملہ کرکے مارچ ۴۸ء کو بلوچستان پر قبضہ کرلیا ۔پہلامزاحمت آغاعبدالکریم نے پاکستانی حکومت کے خلاف جنگ کا اعلان کرکے کیا اورآغاعبدالکریم کی جنگ ایک علامتی جنگ تھی جواثرات کے حوالے سے موثرمگرمیدان جنگ میں بڑی کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ آغا تھوڑی سی مزاحمت کے بعد سرلٹھ چلاگیا کیونکہ ان کے پاس آزادی کی جنگ میں تنظیم یا پارٹی کا وجود نہیں تھا۔ اس کے علاوہ ایوب خان دور میں نواب نوروز خان اور اس کے ساتھیوں نے ایوبی حکومت کے خلاف زبردست مزاحمت کی اوردشمن نے نوروز کو دھوکہ دیکر پہاڑوں سے نیچے اتارا اوران کو حیدرآباد جیل میں پابند سلاسل کردیا ۔ ان کے ساتھیوں کو حیدرآباد میں پھانسی دی گئی؛ خود بابوصاحب پیرانہ سالی میں جیل میں وفات پاگئے۔ کہتے ہیں کہ نواب صاحب پر جیل میں تشددکیاگیا جس سے وہ شہید ہوگئے ۔

نواب نوروزخان کی جدوجہدکے بعد بھٹو کے دورمیں جب وزیر اعلیٰ عطاء اللہ مینگل کی نیپ کی حکومت ختم کی گئی توایک مزاحمت دوبارہ شروع ہوئی مگر اس دور میں بھی کوئی واضح سیاسی تنظیم نہیں تھی اور اس جنگ میں صرف مری اور مینگل قبائل جنگ لڑرہے تھے۔ کوئی واضح سیاسی لائحہ عمل نہیں تھا۔ کوئی تنظیمی پالیسی نہیں تھی۔ مری اور مینگل قبائل اپنے سربراہوں کے مرہون منت تھے ۔جب انیس سوستترکو قبائلی سربراہاں جیل سے رہا ہوئے تو پورے بلوچستان میں خاموشی چھاگئی۔ کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ اس جنگ کا کیا مقصد تھا ۔ضیاء الحق کے پورے دورحکومت میں بلوچ قومی تحریک میں حرکت دیکھنے میں نہیں آئی کیونکہ تمام جددجہد کا محور قبائلی تھا اور پوری تحریک چند شخصیات کے تحریک سے وابستگی ،اندازوں اور سوجھ بوجھ پر منحصرتھا۔ تنظیم اور تنظیمی نظم میں فیصلوں کی عدم موجودگی سے اداروں کا خلاء واضح طورپر محسوس ہوتاتھا مگر اس جانب سنجیدہ کوششیں کبھی نہیں دیکھی گئیں۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ جس مقصد کے لئے ہزاروں بلوچوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ،بے پناہ مالی مشکلات کا سامنا کیا، نتیجہ انہیں مایوسی کے سوا کچھ بھی نہیں ملا ۔

میں بی ایس او سے منسلک تھا اور آزادی کا جذبہ دل میں موجزن تھا اورشہید فدا احمد بلوچ کی سیاسی ہمراہی میں ذہنی طورپر اس بات کا قائل ہوچکاتھا کہ بلوچ جدوجہدمیں تنظیمی خلاکو پر کرنے کے لئے عملی کوشش کی جائے کیونکہ شہید فدا بلوچ ہروقت ادارہ سازی کی درس دیتے تھے۔ انیس سو اسی میں میں نے ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ اس وقت میں بی ایس او عوامی کراچی زون کا صدر تھا۔آزادی کی جستجو کو لے کر انیس سواکیاسی میں میں مری علاقے میں چلاگیا تاکہ اس جدوجہد کو سیاسی تنظیمی بنیاد پر جاری کیاجائے۔ میں نے اپنے طورپر تمام علاقے یعنی مری بگٹی علاقے میں سیاسی تنظیم اور جدوجہدآزادی کے لئے ہوم ورک کیا۔میں اورمیرے چند دوست اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر آزادی چاہتے ہیں تو ایک سیاسی پلیٹ فارم بنایا جائے اور جدوجہدکوسیاسی تنظیم تشکیل دی جائے۔ ہم نے بزگرمیں شہید سدومری کے کیمپ میں غالباََ پچاسی یا چھیاسی کوتمام کمانڈروں کو بلاکر ایک میٹنگ کا انعقادکیا۔ اس میں میرے علاوہ شہید سعادت مری ،میر عبدالنبی بنگلزئی ،میررحمدل مری،نیاز احمد چلگری اورشکل کلوانی شامل تھے۔ ہم نے اس پر بحث و مباحثہ کی ۔تمام ساتھی میرے موقف کے حامی تھے مگر میرصاحب نے زبردست اس کی مخالفت کی اور ان کا کہنا تھا کہ ’’آپ لوگ اپنے نمائندے بابوشیر محمد مری کے پاس بھیج دیں ‘‘اس کے بعد کیمپوں کے کمانڈر اور میرصاحب بشمول من کوئٹہ میں بابو شیر محمد مری سے ملاقات کی اور اپنا مدعابیان کیا۔ وہاں غیر متوقع طورپرشیر محمد مری نے بھی اس کی بھرپور مخالفت کی اورکہا کہ’’ آپ لوگ سامراج کی زبان میں بات کر رہے ہیں ‘‘اوریہاں بھی میرعبدالنبی نے شیر محمد کی تائید کی۔ یہ انیس سو چھیاسی کی بات تھی۔ میں اس نتیجے پر پہنچاکہ موجودہ جدوجہدمیں اسٹیک ہولڈرتحریک پر اپنی گرفت قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ اس مقصدکے لئے قبائلیت ا ن کا موزوں ہتھیارہے ۔قبائلی محورکے گرد گھومنے والی جدوجہدمیں ’’قبائلیت ‘‘ کو میرعبدالنبی کی بھی بھرپور حمایت حاصل تھی ۔ہم نے اس وقت بھی شیر محمد مری سے کہا تھا ’’جناب سیاسی جدوجہد کو ایک منظم سیاسی تنظیم کی ضرورت ہے ‘‘۔اس کے علاوہ آزادی ہمیں نہیں مل سکتی۔ مگرہماری آوازایسی تھی جیسے نقارخانے میں طوطی کی آواز۔۔۔۔لیکن میں نے مایوس ہونے بجائے اپنا کام جاری رکھا کہ کوئی صورت نکل آئے گا۔ اس وقت نواب خیر بخش اپنی طویل جلاوطنی کے سلسلے میں یورپی ممالک کا دورہ کرنے کے بعد افغانستان میں مقیم تھے ۔

جدوجہد میں پارٹی کی خلاء کو پرکرنے کے لئے نواب خیربخش مری سے ملنے کے لئے شہید فدااحمدبلوچ ،میر حمل پرکانی اورمیر عبدالنبی بنگلزئی کے ہمراہ کابل افغانستان چلے گئے۔ بنیادی معاملہ تنظیم کی ضرورت اور اس کے قیام کے لئے کوششیں تھیں تاکہ اس جانب پیش رفت کیاجائے اور تین مہینے وہاں قیام کیا۔ جب واپس آئے توہم نے کراچی میں ایک میٹنگ کا انعقاد کیا جس میں راقم کے علاوہ شہید فدا احمد ،میر عبدالنبی بنگلزئی اورمولابخش دشتی شامل تھے۔ شہید فدا احمد نے اپنی رپورٹ پیش کی، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ’’ جب میں نے نواب صاحب کے سامنے اپنی رائے کا اظہارکیا تو نواب صاحب نے مجھ سے تنظیمی خاکے کامطالبہ کیا تو میں نے انہیں بلوچ قومی سیاسی تنظیم کا خاکہ اور اس کے آئینی ڈھانچہ فراہم کیا لیکن نواب صاحب بنیادی طورپر تنظیم کے ضرورت پر قائل نہیں ہوسکا۔ اس کے ساتھ ہی نواب صاحب نے میر عبدالنبی بنگلزئی کو اپنا نمائندہ بنایا جبکہ مجھ کو (فدااحمد بلوچ) بلوچ طلباء تنظیم بی ایس اوعوامی کا نمائندہ قراردیااوربلوچستان میں جاکر اس پر مزیدکام کرنے کی ہدایت کی گئی تو میں بلوچستان آگیا۔ فدابلوچ کا کہنا تھا کہ بی ایس او سے فارغ ہونے والے سیکڑوں کی تعداد میں فارغ التحصیل نوجوان پاکستانی نظام میں چلے جاتے ہیں اور بلوچ قومی تحریک سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ قومی سیاسی پارٹی کی عدم موجودگی ہے ،جبکہ میٹنگ میں میر عبدالنبی بنگلزئی کا کہنا تھا ان کا رشتہ اوراعتمادنواب صاحب کی شخصیت سے وابستہ ہے وہ انہیں کسی صورت میں چھوڑ نہیں سکتے ہیں۔ یوں ہمار ا یہ میٹنگ بھی بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوا ۔اس میٹنگ کے اثرات یہ ہوئے کہ شہید فدا بلوچ نے بی این وائی ایم کے نام سے ایک پارٹی کی داغ بیل ڈالی ۔

انیس سو نوے کے سال ہم میر عبدالنبی بنگلزئی کے ساتھ افغانستان چلے گئے۔ افغانستان میں سیاسی تنظیم کی بجائے بلوچیت اورقبائلیت کی بنیادپر کام کررہے تھے۔ کسی قسم کی تنظیمی سیاست نہیں تھی مگر اس وقت چند طلباء اور رہنما سوویت یونین چلے گئے۔ وہ بی پی ایل ایف کے پلیٹ فارم سے جاتے تھے یا اس کے علاوہ جتنے بھی بلوچ ہمدرد ملک تھے ان کے ساتھ تعلقات کے باب میں یہی تنظیم کا نام استعمال ہوتا تھا مگر گراؤنڈ میں اس تنظیم کے خدوخال واضح نہیں تھے اورنہ ہی اس کے پلیٹ فارم پر فیصلے ہوتے تھے۔

ہم نے نواب سے پوچھا کہ بی ،پی، ایل، ایف کیا ہے ؟ کیا یہ ہماری تنظیم نہیں ہے ؟

توانہوں نے کہا ’’بالکل نہیں ،اس کو’’ ہم کارڈ‘‘ کے طورپر استعما ل کررہے ہیں ،اس سے ہمار اکوئی تعلق نہیں ہے‘‘
تو ہم نے جس میں ڈاکٹر بہارخان مرحوم پیش پیش تھا نے کہا ایک قومی سیاسی تنظیم،ایک قومی سیاسی پارٹی تشکیل دی جائے ۔

نواب صاحب نے کہا کہ ’’ہلمند جاکر عوام سے مشورہ کریں گے ‘‘۔

تو جب ہم لوگ ہلمند گئے تو وہاں پر بحث و مباحثہ ہوئی کہ ’’کس طرح کی تنظیم بنائی جائے ‘‘تو میں نے ایک تنظیمی خاکہ پیش کیا جس میں بلوچ قوم کی تاریخ، سیاسی جدوجہد اورتنظیم کی ضرورت پر زوردیاگیا توتقریباََ دوہزاربلوچوں کے مجمع میں نواب خیر بخش مری ،میرعبدالنبی کی موجودگی میں میرہزارخان کافی حد تک ناراض ہوئے اورانہوں نے غصے میں آکر مجھے کہا کہ ’’آپ مکران سے آئے ہو تو آپ مکران چلے جائیں ،ہماری تنظیم مریوں تک محدودہے اور قبائلیت خود ایک تنظیم ہے ‘‘۔

نواب صاحب خاموش رہا۔انہوں نے نہ ہماری حمایت کی اورنہ ہی مخالفت ۔لیکن ایسا پہلی بار ہورہاتھاکہ اُس دورکے جدوجہد سے جڑے جہدکاروں کے سامنے پہلی بار یہ مسئلہ پورے آب وتاب کے ساتھ زیر بحث آیا۔ مگریہ پہلی سیاسی مجلس ایک ٹرننگ پوئنٹ ثابت ہوا کہ اس کے بعد مری قبیلہ گزینی اور بجارانی دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ،کیونکہ یہاں سے میرہزارخان کا گروپ الگ ہوگیا جبکہ اکثریت کا تعلق نواب صاحب کے ساتھ رہا ۔

انیس سو بیانوے کو جب نجیب اللہ کی حکومت ٹوٹ گئی اورمجاہدین برسراقتدار آگئے توافغانستان براہ راست پاکستان کے زیر اثر آگیا اور ہمارے لئے مزید قیام ممکن نہیں رہا۔ ہم لوگ واپس ’چھوٹو‘کے راستے دالبندین میں پہنچے اوروہاں سے کوئٹہ چلے گئے ،اورچلتن کے دامن میں نیوکاہان کے نام سے ایک کیمپ میں رہائش اختیار کی جسے عالمی اداروں کے ساتھ پاکستان کے فلاحی ادارہ ایدھی وغیر ہ اشیائے خردونوش کی مدمیں مددکرتے تھے ۔نواب صاحب اپنے گھر میں رہائش پذیر تھے مگر روزانہ صبح کو کیمپ میں آتے تھے۔ وہاں پر بھی ہم نے تین مہینے تک تنظیم اورتنظیم کاری پر بحث کی لیکن نواب صاحب کوانیس سو ترانوے تک منظور نہ تھی۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس تاریخی جدوجہد میں تنظیم نام کی کوئی چیز نہیں تھی ۔ یہاں سے فکری طورپر میں اپنے راستے الگ کرچکاتھا کیونکہ میں اس نتیجے پر پہنچ چکاتھا کہ جدوجہد تنظیمی دستور اور لائحہ عمل کے بغیر کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتاہے اورتنظیم کے قیام میں رکاوٹ ڈالنا میں سمجھتا ہوں کہ ارتقاء کی راہوں کو مسدودکرنے کے مترادف ہے جس کا نقصان ہمیں اٹھاناپڑتا ہے۔ ہمیں ہر صورت میں اس جانب بڑھنا چاہئے۔ اس کے بعد میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ کام کا آغاز کیا اورہم سن دوہزارمیں بی ایل ایف کے نام سے ایک تنظیم پر متفق ہوئے۔ بی ایل ایف کو قیام میں لانے میں ڈاکٹر اللہ نذر ،شہید سعادت مری ،میر رحمدل مری ،ڈاکٹر خالدکے علاوہ چند اور دوست تھے جن کے نام یہاں بیان کرنا مناسب نہیں۔

غالبا دوہزار دویا تین کو حیربیار مری نے ہمیں دبئی بلایا اورایک میٹنگ کا انعقادکیا جس میں راقم کے علاوہ حیربیار مری ،شہیدامیربخش ،استاد اسلم بلوچ ،حسنین جمالدینی ،نبی دادمری شامل ہوئے۔ یہ میٹنگ شاید میرحیر بیارمری نے پرانے تعلقات کی بناء پر بلایا تھا مگر میں ذہنی طورپر شخصی اجارہ دارانہ جدوجہد سے مایوس ہوچکا تھا اور ہم متبادل کے طورپر بی ایل ایف کا قیام عمل میں لاچکے تھے۔اس میٹنگ میں بھی حیر بیار اُسی طریقہ کارپر مصر تھا۔ شایدتنظیم کی ضرورت محسوس کرنے والے احباب نے تسلی کے لئے بی ایل اے کے نام سے جدوجہد کرنے پر زوردیا۔ میرے نزدیک بی ایل اے کسی واضح تنظیمی ڈھانچہ اور دستور سے محروم فقط ایک نام تھاجس پر ایک فردکی اجارہ تھی۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ اس میٹنگ میں حیربیار نے کہاکہ ’’میرے جیل جانے یا کسی دوسرے حادثاتی یا طبعی موت کے بعد میرا بھائی زعمران میرا جانشین ہوگااوروہی اس مشن کوآگے بڑھائے گا ‘‘۔ یہ اس بات کا عندیہ تھا کہ بی ایل اے کی آڑ میں وہی موروثی اوراجارہ دارانہ سیاست کوبلوچ کا مقدربنانے کا دورختم نہیں ہواہے بلکہ اسے نئے دورکے ساتھ نئی روپ میں مزید مستحکم کیاجارہاہے ۔اس پر میں مطمئن نہیں ہوسکا۔ میں نے اس میٹنگ میں باقاعدہ بی ایل ایف کا آئین ،منشور،عملی پروگرام پیش کیا اوردوستوں پر واضح کیا کہ ہمارا جدوجہد اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے ہوگا۔ ہاں ہم آپ کے ساتھ تعلقات قائم رکھیں گے اور مشترکہ جدوجہدکے لئے تیار ہیں مگر ہمارا پلیٹ فارم الگ ہوگا اورہمارے فیصلے تنظیمی ہوں گے‘‘ ۔اس کے بعد ہم نے اپنا کام جاری رکھا۔ یہاں یہ سب ذکرکرنے سے میر امقصود یہ ہے کہ بلوچ قومی جدوجہد میں بی ایل ایف پہلی دستوری تنظیم تھی جس کے تنظیمی ڈھانچے کے علاوہ عملی پرگروام ،اختیارات کی تقسیم اور فیصلہ و پالیسی ساز اداروں کے اشکا ل واضح تھے۔

اکیسویں صدی بہت حوالوں سے جاناجاتا ہے ۔ بلوچ کے لئے اس کے اثرات نہایت وسیع ہیں۔ مشرف کے دورمیں میگامنصوبوں کے ذریعے بلوچ کے وجود کو مٹانے کے لئے پاکستان نئی تیاریوں کے ساتھ سامنے آئی ۔پاکستان کو بلوچ مزاحمت کے ابھارکاخدشہ ضرورتھا کہ اُس نے متوقع تحریک کوکاؤنٹر کرنے لئے ایسی جماعت کی ضرورت محسوس کی جو مستقبل میں پاکستان کا ہمنوا بن جائے اورپاکستانی منصوبوں کی حمایت کرے اور اس کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے میں پاکستان کی مددکرے اوریہ کام پاکستان نے نیشنل پارٹی کے قیام کی صورت میں کیا لیکن یہاں سے بلوچ نیشنل موومنٹ جیسے قومی پارٹی کا وجود سامنے آیا۔ چیئرمین غلام محمد شروع ہی سے بلوچ قومی آزادی کے لئے ایک جذبہ رکھتے تھے مگر سابقہ بی این ایم کے لیڈرشپ کی منافقانہ سیاست اوردھوکہ دہی کی وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہیں موقع نہیں ملا۔ جب سابق بی این ایم اور بی این ڈی پی نامی پارٹی نے انضمام کرکے واضح طورپر قومی موقف سے انحراف کی تکمیل کی اور نیشنل پارٹی بنائی تو چیئرمین غلام محمد شہید نے اس موقع پر تاریخ کاحق اداکرکے بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کو برقرار رکھ کر جد وجہد کی۔

اس کام میں بلوچ قومی تحریک میں پارٹی جدوجہدکے قائل رہنماؤں نے چیئرمین غلام محمد کا ہرقدم پر ساتھ دیاجو قومی سیاسی پارٹی کی خلاء کو پر کرنے کا بہترین ذریعہ بن گیا اور آج تک تجربہ یہی کہتاہے کہ جس پارٹی کو عشروں پہلے بننا چاہئے تھا لیکن بلوچ آزادی پسند لیڈرشپ کی مسلسل پہلوتہی سے نہیں ہوسکا تھا مگر غلام محمد جیسے تاریخ کے مزاج سے آشنا انسان نے یہ کام آسان کرکے بلوچ قوم کوایک ایسی سیاسی پارٹی سے نوازا جس کا بلاشبہ تاریخ میں ہمیں نظیر نہیں ملتی۔ بلوچ نیشنل موومنٹ کے قیام کے بعد بلوچ تحریک آزادی کو ایک ایسی استحکام مل گیا کہ آج تک دشمن کی تمام بربریت کے باوجود تحریک کا تسلسل نہ صرف قائم ہے بلکہ روز بہ روز اس کی طاقت میں اضافہ دیکھنے میں آرہاہے ۔

میں نے یہاں صرف بی ایل ایف اور بی این ایم کا ذکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ دوسری تنظیم اور پارٹیوں کا ذکر نہ کرنے کا میرامقصد خدانخواستہ انہیں نظرانداز کرنا نہیں ہے۔ ہر کسی کی ایک اہمیت ضرور ہوتی ہے۔ ماضی میں تحریک پارٹی سے محروم تھا لیکن اس کی اہمیت سے ہم انکار نہیں کرسکتے ہیں لیکن میرا تجزیہ تاریخ کے تناظر اور تجربات کی بنیاد پر ہے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بی این ایم اور بی ایل ایف کے علاوہ دوسری تنظیمیں اس معیار پر پورا نہیں اترتے ہیں جنہیں پارٹی اور تنظیم کا معیار مانا جاتاہے ۔

میں ایک جہدکار کی حیثیت سے محسوس کررہاہوں کہ بلوچوں کی باقی جتنی تنظیمیں ہیں ان میں جمہوریت ،سیاسی شعور ،اختیار کی تقسیم اورجمہوری مرکزیت کی کمی ہے ۔میں یہ بات دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ان تنظیموں میں اختیارات کی تقسیم کی فقدان ہے اورفرد واحد کی حکمرانی ہے۔ جمہوریت مرکزیت سے لے کر اورسیاسی اداروں کی کمی ہے ۔۔میں پھر سے دوستوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ اگر وہ بلوچستان کی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں تو اس جنگ میں انہیں ایسے منظم سیاسی تنظیم کی اشد ضرورت ہے جسے واقعتاتنظیم یا قومی پارٹی کہاجائے ،اوران میں پالیسی ساز ادارہ ہوناچاہئے اورادارے میں جمہوری مرکزیت ہونا چاہئے۔ فرد واحد نہ تنظیم چلاسکتا ہے اورنہ ہی آزادی حاصل کرسکتی ہے۔ میرا دوستوں کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ قومی آزادی کے جدوجہدکے لئے اس عالمی سچائی کا ادراک کریں کہ اس جدیددورمیں شخصی اجارہ داری ایک دقیانوسی اور فرسودہ سوچ ہے،اس سے چھٹکارہ پانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے حاصل وصول سوائے زیاں کے کچھ نہیں ۔