گزان سے گزان تک کا سفر
تحریر ۔مجید بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ ” کالم
ضیاء عرف دلجان کا پیدائش گزان میں ہوا اور چار سال کی عمر میں شہید دلجان کا خاندان گزان سے ہنجیرہ منتقل ہوگیا۔ ضیاء نے ابتدائی تعلیم ہنجیرہ سے حاصل کی، غربت و قبائلی جنگوں کے باوجود انکے والد صاحب انہیں مزید تعلیم کے لئے حب چوکی لے آئے، ضیاءجان نے آٹھویں کلاس تک گورنمٹ ہائی سکول حب سے تعلیم حاصل کی اور وہیں سے بی ایس او میں شامل ہو کر اپنے بساط کے مطابق جہد کرتا رہا، ضیاءالرحمٰن کے باقی دوست پرائیویٹ اسکولوں میں داخلہ لینا چاہتے تھے، مگر ضیاء اپنے گھر کے حالات سے بخوبی واقف تھا، وہ جانتا تھا کہ میں سکول فیس وغیرہ کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتا اور نہ ہی میرے گھر والے یہ بوجھ اٹھا سکتے ہیں، مگر ضیاء ہمیشہ نیا راستہ تلاش کرنے والوں میں سا تھا، اسے مزید تعلیم کا شوق تھا، تو اپنے اخراجات پورا کرنے کے لیے اس نے میڈیکل اسٹور پر کام کرنا شروع کر دیا اور اسکول میں داخلہ لے کر میٹرک مکمل کرلیا۔ میٹرک کے بعد وہ پراویٹ امتحان دیتا گیا اور مختلف جگہوں پر کام کرکے اپنے گھر کے خرچوں وغیرہ میں اپنے والد اور بھائیوں کا ہاتھ بٹاتا رہا۔
2008 میں ضیاء شیخ زید ہسپتال میں ڈیوٹی پر لگا، ضیاء کی نوکری سے اس کے خاندان کے لوگ خوش تھے، مگر کسی کو معلوم نہ تھا کہ ضیاء صرف ایک عام آنسان نہیں ضیاء کا سفر نوکری گھر بار نہیں تھا، وہ ایک انقلابی سوچ کا مالک تھا، وہ سوچ جو اس نے اپنے دل و دماغ میں بچپن سے پال رکھا تھا، اسے اب تک بہت کچھ کرنا تھا، ضیاء جان نے ششم کلاس سے بنیادی سیاست بی ایس او استار سے شروعات کیا تھا، وہ شہید حمید شاہین سے کافی متأثر تھا، شہید سنگت ضیاء نے بی ایس او کے انضمام میں کافی محنت کیا اور اس عمل سے خوش تھا، وہ شروع سے مل کر یکجاہ کام کرنے کا حامی تھا، مگر انضمام کے بعد بی ایس او کے چیئرمین امان اور دیگر مرکزی ممبران سے اختلافات کے بعد ان نے کونسل سیشن سے بائیکاٹ کیا۔
ضیاء ہمیشہ خود سوچتا اور اپنا فیصلہ خود کرتا، جو اسکے سمجھ میں آتا اس پر سوچتا متفق ہوتا، پھر عمل کرتا کبھی کسی پارٹی یا تنظیم میں کسی شخصیت کے خاطر سیاست نہیں کی، ضیاء بی ایس او میں مختلف عہدوں پر رہا۔ انضمام کے بعد مشترکہ بی ایس او حب زون کے جنرل سیکریٹری رہے۔ ضیاء کافی ایکٹیو ورکر تھے۔ نواب بگٹی کے شہادت کے بعد ہڑتالوں، احتجاجوں، مظاہروں و سرکلوں میں دن رات محنت کرتا تھا۔ ہر رات کسی اور مختلف جگہ اپنے دوستوں کے ساتھ کِسی ایک کے بیٹھک میں سوتا کہ اگر اگلے دن کہیں باقی دوست دیر سے آگئے تو ہڑتال ناکام نا ہوجائے۔ نواب بگٹی کے شہادت کے بعد کے ہڑتالوں کے آیف آئی ار میں ضیاءجان کا نام بھی تھا، مگر ضیاء جو روشنی بخشنے نکلا تھا بھلا اسے جیل زندان کا کیا ڈر تھا۔
مگر وہ کبھی بھی جیل یا اخباری سیاست پر یقین نہیں رکھتا تھا، وہ بس اپنے تنظیم کے کام کو مکمل کرتا تھا۔ ہڑتال شروع ہوتے ہی اسکے اکثر سینئر دوست پولیس کے ہاتھون خود کو گرفتار کروا کے چھوٹی شہرت حاصل کرنا چاہتے تھے، مگر ضیاء کو اپنا کام مکمل کرنا ہوتا تھا، نام سے اسے کوئی بھی سروکار نہ تھا، وہ جانتا تھا کہ ہم غلام ہیں، غلامی سے آجوئی کا رستہ جہد مسلسل و لوگوں کو بیدار کرنے میں پنہاں ہے۔ وہ جانتا تھا کہ لوگوں میں شعور پیدا کرنا ہے، کہیں دوست رشتہ دار بن کر، تو کہیں مسافر بن کر، وہ ہمیشہ اپنے کام میں جٹا رہا۔
ضیاء بی ایس او آزاد کے وقت باقاعدہ اس کا رکن تو نہ تھا، مگر اس نے زہری، حب، کوئٹہ میں اپنے سرکل و اردگرد کے دوستوں کو بی ایس او آزاد میں نہ صرف شمولیت کرواتا رہا بلکہ انکے ساتھ رہ کر انہیں کام کرنے کا طریقہ سکھا تا رہا. اس نے ہمیشہ نام، شہرت، واہ واہی، و دشمن سے بچنے کا درس دیا تھا، وہ بی ایس او کے تمام نامی لوگوں سے واقف تھا اسلئے اپنے سرکل کے دوستوں کو اس متعلق ہر وقت رہنمائی کرتا۔
سیاست پلیٹ فارم سے جڑے رہ کر جب قومی آزادی کی جنگ شروع ہوئی تو ہر زبان پر بی ایل اے کا نام تھا، مگر ضیاء نے گفتار کو چھوڑ کر عملی جدوجہد کرنے والوں کو تلاش کرنا شروع کردیا، وہ جانتا تھا قومی غلامی کے زنجیروں کو توڑ نے کا واحد راستہ مسلح جہدو جہد، بمع قلم ہے۔ ایک بار سنگت کو کہیں سے بی ایل اے کی طرف سے شائع کردہ سی ڈی ملی جس میں ایک کمانڈر بلوچ قوم سے تیار رہنے کا ترغیب دیتا ہے اور کہتا ہے کہ بلوچ قوم تیار رہے ہم خود ان سے اپنے طریقہ کار سے مل کر جہد کا حصہ بنائینگے۔ ضیاء جان نے بی ایل اے کے سپاہی بننے کے لیے خود کو تیار رکھنا شروع کردیا پر اس بیچ وہ اپنے سیاسی کاموں کو بھی بخوبی نبھاتا رہا۔
پھر وہ دن بھی آیا جس کا انتظار ضیاء برسوں سے کر رہا تھا، وہ بہت خوش تھا اسکی خوشی حق بجانب تھی، ضیاء پیدا ہی جہد کرنے کیلیئے ہوا تھا، اپنے لوگوں کو راستہ دِکھانے، انکے بزگی و غلامی کے خلاف لڑنے کے لیے ضیاء اس دنیا میں آیا تھا، ورنا کون ہوش سمبھالتے ہی اپنے دل میں ریاست کے بربریت و ظلم کو دیکھتے ہی اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے، جہاں لوگوں کو اپنی ذات اور زندگیوں سے ہی فرصت نہیں ہو۔ لیکن ضیاء تو ضیاء تھا وہ سورچ بن کر ہر سمت پھیلنے کی تیاریوں میں مگن تھا۔
مجھے بخوبی یاد ہے جب اس نے مجھے فون کرکے ملنے بلایا، ایک ہفتے تک صرف لیکچر دیتا گیا، میرے اور اس کے بیچ سرکلوں کے علاوہ کئی بار اس طرح کا گفتگو ہوتا رہا تھا، مگر اس بار کے ملاقات میں اس مہربان چہرے کے تاثرات کچھ اور ہی تھے، ہم دوست جہاں کھڑے تھے ضیاء وہاں سے آگے نکل چکا تھا، ضیاء اپنے ضیاء کو وطن پر قربان کرتے ہوئے دلجان بن چکا تھا، وہ حب کے گلیوں سے نکل کر بلوچستان میں داخل ہوا تھا۔
یہ اسکی باتوں سے صاف ظاہر تھا کہ اس بار کا سفر سرخ رو ہونے کا تھا، میں بس اسے سنے جا رہا تھا، آخر کار جب مجھے مطمئین، پا کر کہا کہ اب بی ایل اے میں شامل ہو کر قومی غلامی کے خلاف جنگ کا حصہ بننا ہے، ضیاء ہر وقت مجھے کہتا کہ پہلے اپنے گھر کا پوزیشن بناؤ ابھی ہم شہر میں ہیں، کل ہم پہاڑوں میں جائینگے، ہمیں وہ موقع نہیں ملے گا، جو ابھی ملا ہے، وہ میرے گھر کے حالات سے بخوبی واقف تھا، وہ ہر پہلو پر نظر رکھتا تھا، اسے میرے گھر کا فکر تو تھا، مگر اپنے گھر سے بے خبر دیوانوں کی طرح بس چلتا ہی رہا، وہ میرے زندگی میں ایک استاد کی حیثیت رکھتا ہے۔
جس استاد نے کافی کچھ سکھایا، کچھ عرصے بعد میرےاستاد ضیاء جان کے قریبی دوست جن میں شہید خلیل، شہید سلیمان، شہید زبیر دشمن کے ہاتھون گرفتار ہوئے تو سنگت نے شہر چھوڑ کر پہاڑوں کا روخ کرلیا، پھر کبھی کبھار بات ہوا کرتا تھا، شروع دونوں میں سنگت بہت کم نیٹورک پر آتا اور فون پر حال حوال کرتا، کبھی جو مذاق میں سوال کرتا کہ تین سال بعد بھی d j ہو یا کمانڈر بنے تو مجھے کہتا ہمارا مقصد کمانڈر بننا نہیں بس دعا کرو اس جہد کو درست ہاتھوں میں تھما کر ایک سپاہی ہونےکا حق ادا کر کے آسودہ خاک ہو جائیں، ہمارا مقصد اپنے کام کو آگے لیجانا ہے۔
سنگت کافی ہنسی مزاق کرتا تھا، مگر کام کے متعلق سخت مزاجی کا مظاہرہ کرتا، پریشر دیتا جب کام ڈھیلا یا سست ہوتا۔ یہ سفر عاشق مزاجی کا یونہی چلتا رہا، سنگت بولان سے قلات پھر پارود شور کے کیمپ میں رہا، ہر وقت دیدہ دلیری سے لڑتا رہا، ہر ناممکن مشکل کا ہنس کر مقابلہ کرتا رہا، اسی خواری محنت ایمانداری کے بعد وہ زہری کا کمانڈر بن کے سرزمین سے کیا ہوا وعدہ نبھنانے چلا گیا۔ سنگت نے جھلاوان کا کمانڈ سنبھالا اور کام کو ترتیب دیتا رہا، اپنے کئی سالہ تجربے و مخلصی کو کارآمد بناتے ہوئے، سیاسی و مسلح کام انجام دیتا رہا، اسکا ایک ٹھکانہ کبھی نہ ہوا، وہ دن کہیں تو رات کہیں کاٹتا بس اپنے کام میں مگن پاگل پن کی حد تک چلتا رہا۔
جب دشمن نے میرے سنگت پر حملہ کیا، تو سنگت آخری لمحوں تک دشمن کے سامنے لڑ کر آخری گولی اپنے لیئے بچا کر رکھا، تاکہ دشمن کے ہاتھوں گرفتار نہ ہو، بزدل دشمن ضیاء کو کیا کبھی کوئی قید کر سکا ہے، وہ تو من مست ہے، جس طرف چاہے، اس سمت پھیل جاتا ہے، جسے تم کم عمری میں خالی ہاتھ گرفتار نہ کر سکے، اب تو وہ آہن بن کر ابھرا تھا، اب مجال کہ زرہ بھر خوف اسکے دل میں آیا ہو، موت کرائے کے قاتلوں کیلئے خاتمہ ہوگا، مگر ضیاء کیلئے روشنی بخشنے کا سنہرا موقع ہے، تب ہی تنظیمی رازوں کو اپنے ساتھ دفنانے کے لیے اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کر کے ہزاروں سالوں کی زندگی حاصل کر گیا۔ ضیاء نے جس طرح بندوق سے قومی آزادی کی خدمت کی، اسی طرح وہ اپنے قلم سے بھی قوم کو بیدار کرتا رہا، دشمن سنگت کو بار بار سرنڈر کرنے کا کہتا رہا، مگر مجال کہ کبھی سفر میں سنگت کے قدم ڈگمگائے۔
کہنے کو کافی کچھ ہے حقیقی زندگی وہی ہے، جو ضیاء جی کر چلا گیا۔ وہ زندگی چند اوراق کا نہ محتاج ہے، نہ ہی میری اتنی بساط ہے کہ انہیں الفاظ میں اتار سکوں، بس ایک ارمان دل میں ہے کہ کچھ تو لکھوں تاکہ یہ جو جلن، جو آگ لگی ہوئی ہے سینے میں، تھوڑی تسکین پا سکے۔ بس دلجان کے کچھ پیغامات کے ساتھ چلا جاتا ہوں۔
“دشمن کے سامنے کبھی سر مت جھکانا دشمن کو گولی سے جواب دیناہ ہوگا”
“کام کرو ضروری نہیں گولی چلانے میں پرفیکٹ رہو، آپ ایک شخص سے ملاقات کرکے چار باتیں کرو، تو سمجھ لو کہ آپ نے آج کا کام مکمل کرلیا، آپ پورے سال میں ایک جہد کار کو تیار کرو اور دوسرے سال آپ اور آپکا وہ دوست ایک ایک اور جہد کار تیار کریں تو یہ کاروان بڑھتا رہیگا”
سنگت ضیاء نے شہر سے جانے کے بعد بہت سے دوست و عزیزوں پر امید رکھا تھا کہ وہ بھی اسکی طرح کارواں کا حصہ بنیں گیں، مگر خوف لالچ اور حرس سے ہر ایک آپ کے طرح صاف نہیں ہوسکتا۔
سنگت ضیاء اپنا من چاہا زندگی جیا وہ بی ایس او میں رہا اپنا کام عمل سے ثابت قدم رہا، وہ عام زندگی میں بھی کبھی مایوس نہ رہا، جنگ کے میدان میں گواہی اسکا آخرئی گولی دے رہا ہے. ضیاء نے ضرور خواہش کیا ہوگا کہ زہری میں آسودہ خاک ہونے کا، تب ہی
40 سال پہلے شہید کے دادا شاہ دوست میروزئی زہری کو زہری میں آسودہ خاک کرنے کے بعد میروزئی خاندان کے کسی اور فرد کا قبر اس قبرستان میں نہیں تھا، چالیس سال بعد اس قبرستان کو میرے دوست ضیاء نے آباد کیا اور اسے اسکے دادا شاہ دوست کے پہلو میں آسودہ خاک کیا گیا۔ شاید شہید دلجان کے دادا بہادر نواسے کو ملغوے کی چوٹی سے بندوق کاندھے میں لٹکائے اتر تے دیکھ کر اسکے خوشبو سے پہچانا ہوگا اور اپنے ہم عمر نوروز خان کو خبر سنایا ہوگا کہ میرا نواسہ اس کارواں کا حصہ بن کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر ہونے کو آیا ہے۔