بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان گہرام بلوچ نے نامعلوم مقام سے برطانوی جریدے فنانشل ٹائمز میں پیر کو شائع ہونے والے ایک رپورٹ پر اپنے ردعمل میں کہاہے کہ فنانشل ٹائمز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چین پچھلے پانچ سال سے بلوچستان میں ’’قبائلی علیحدگی پسندوں‘‘سے چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کو تحفظ فراہم کرنے کے سلسلے میں رابطے میں ہے ۔اس پر گہرام بلوچ نے کہا کہ تمام بلوچ جمہوری پارٹیاں اورمسلح تنظیمیں چینی سرمایہ کاری اور استحصالی منصوبوں کیخلاف جدو جہد کررہے ہیں۔ اسی مزاحمت کی وجہ سے اکثر و بیشتر چینی منصوبے ناکامی سے دوچار ہیں۔ اس رپورٹ کے تناظر میں ہم واضح کرتے ہیں کہ قومی تحریک سے وابستہ کسی بھی پارٹی ،تنظیم یا شخصیت نے خفیہ طریقے سے ایسی کوشش کی جس کا اشارہ مذکورہ رپورٹ میں کیاگیا تووہ نہ صرف بلوچ قومی حمایت سے محروم ہوگا بلکہ ایسی کوشش اس کی سیاسی موت کے مترادف ہوگا۔
گہرام بلوچ نے کہا کہ رپورٹ بلوچ قومی تحریک کے بارے میں ابہام اورغلط فہمیاں پیدا کرنے کی پاکستان اور چینی کوششوں کا حصہ ہے۔ ایک ایسی ہی کوشش گزشتہ دنوں چینی سفیر ژاؤ ژنگ نے اپنے انٹرویو میں کیا تھاکہ بلوچ مزاحمت سی پیک کے لئے خطرے کا باعث نہیں رہے ۔ پاکستانی فوج نے بارہا تسلیم کی ہے کہ بلوچستان میں سی پیک منصوبے کی روٹ پر انھیں مزاحمت کا سامنا ہے اور کئی فوجی اور فرنٹیر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کے اہلکار ہلاک کئے جا چکے ہیں۔ پچھلے سال بی ایل ایف کے سرمچاروں نے بیس ایف ڈبلیو او کے اہلکاروں کو گرفتار کرکے موت کی سزا دیدی۔ دوسری طرف اس رپورٹ کا مقصد بلوچ قومی تحریک کو ایک قبائلی تحریک دکھانے کی کوشش ہے۔ جبکہ دنیا حقیقت سے واقف ہے کہ آج عام آدمی اور پیشہ ور شخصیات سے لیکر تمام مکتبہ فکر کے لوگ اس تحریک کا حصہ ہیں۔
قومی تحریک میں ایک ذمہ دار تنظیم کی حیثیت سے بلوچستان لبریشن فرنٹ کا موقف واضح ہے کہ بلوچستان ایک مقبوضہ خطہ ہے جہاں کوئی بھی غیرملکی یا قبضہ گیر کا منصوبہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور بلوچ قوم ایسے تمام منصوبوں اور سرمایہ کاری کیخلاف مزاحمت جاری رکھے گی جو بلوچ قومی منشا کے بغیر وجود میں لائی جارہی ہوں اور جس سے بلوچ قومی شناخت اور بقاء کو خطرات لاحق ہوں۔بلوچستان میں سرمایہ کاری کرنے والابڑا ملک چین ہے جو اپنے سامراجی اور توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لئے بلوچستان میں سی پیک کے نام سے بننے والے استحصالی منصوبوں پر کثیر لاگت لگاچکاہے۔ ان چینی منصوبوں سے نہ صرف بلوچ قومی وجود خطرے سے دوچار ہے بلکہ خطے کی امن و سلامتی داؤ پر لگ چکاہے۔ چین اس کوشش میں ہے کہ بلوچستان میں اپنی عسکری موجودگی کو یقینی بناکر نہ صرف آبنائے ہرمزپر کنٹرول کرے بلکہ یہاں سے بھارت کے ساتھ مقابلہ اورساتھ ہی مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک میں اپنی اثر ونفوذکو مضبوط کرے۔ جبوتی ،گوادراور سری لنکا میں موجود چینی پورٹ اسی پروگرام کاحصہ ہیں ۔ گوادرمیں کامیابی کی صورت میں چین کاپورے خطے میں بالادستی قائم ہوجائے گا اور بڑی تعداد میں آباد کاری کرکے بلوچ قوم کو ہمیشہ کیلئے اقلیت میں تبدیل کردیگا۔
گہرام بلوچ نے کہا کہ یہ امر اب وضاحت طلب نہیں رہاکہ چین اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں اور سامراجی منصوبوں کے ذریعے خطے میں طاقت کے توازن کو اپنے حق میں لاکر عالمی طاقت بننے کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش میں مصروف ہے ۔ چینی منصوبوں سے آج ہزاروں بلو چ شہید ،لاپتہ اور لاکھوں ہجرت پر مجبور کئے جاچکے ہیں۔ان منصوبوں کے راہ پر آنے والی کئی دیہات و بستیاں بمباری اور زمینی آپریشن سے صفحہ ہستی سے مٹائے جا چکے ہیں۔ بلوچستان میں کوئی گھر ریاستی دہشت گردی سے محفوظ نہیں ۔
انہوں نے کہاہے کہ سی پیک سمیت تمام استحصالی منصوبوں کے خلاف ہماری کاروائیاں اپنی حکمت عملی اور وقت کی مناسبت سے جاری ہیں۔ ان میں کبھی بھی کمی نہیں لائی جائیگی۔بلوچستان میں سی پیک منصوبے کی روٹ پر ہر دوفرلانگ پر قائم پاکستان فوج کی چوکیاں اور بلوچ قوم کے خلاف ننگی فوجی جارحیت خود اس امر کے گواہ ہیں کہ اس منصوبے کی تکمیل میں شدید مزاحمت کا سامنا ہے اور اب تک تمام چینی منصوبے ہوا میں معلق ہیں۔ حالیہ ایکسپوکی ناکامی اس بات کی دلیل ہے کہ چین اور پاکستان کا گٹھ جوڑ بلوچ قومی مزاحمت کے سامنے اپنی موت آپ مررہاہے ۔
گہرام بلوچ نے کہا کہ تمام بلوچ جماعت اورتنظیموں کا فرض بنتا ہے کہ اس رپورٹ کے بارے میں وہ اپنی موقف سامنے لائیں تاکہ موقرجریدے کی رپورٹ میں موجود تحریک میں ابہام یاغلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کو موثر طورپر ناکام بناجائے ۔