مشرقی کردستان میں تحریک ایرن کا مقبوضہ علاقہ
1942ء میں مشرقی کردستان کے علاقے Mahabad میں Society for the rivavil of Kurdistan کے نام سے ایک جماعت بنائی گئی جس میں شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی اکثریت تھی ۔آگے جاکے اس نے ایک سیاسی جماعت Kurdistan Democratic Party (KDP) کی شکل اختیار کرلی ۔ 1946ء ایران میں کرد ریاست Republic of Mahabadقائم کیا گیا جو ایک نیم خود مختیار علاقہ تھا اور قاضی محمد ریاست کا سربراہ تھا ۔ لیکن امریکہ اور برطانیہ نے اس ریاست میں سوویت یونین کے اثرو اسوخ کے پیش نظر شاہ کو فوجی امداد دیکر کرد ریاست کے خلاف فوجی طاقت کا زبردست استعمال کرکے Republic of Mahabadکو ختم کیا ۔of Republic Mahabadکے زوال کے بعد KDP کے بیشتر رہنما عراق منتقل ہوگئے ایران اور عراق کے KDP جنوبی اور مشرقی کردستان میں مشترکہ جدوجہد کرتے تھے ۔ لیکن ایران نے اپنے علاقوں میں مزاحمت کو ختم کرنے کیلئے عراق میں KDPکے سربراہ مصطفی بارزانی کو باقاعدہ مدد کرنا شروع کیا۔بارزانی نے مشرقی کردستان کے KDPکو مشورہ دیا کہ جب تک جنوبی کردستان (عراق) میں کامیابی حاصل نہیں ہوتا اُس وقت تک ایران کے خلاف مسلح جدوجہد کو روک دیا جائے بارزانی کے اس تجاویز نے KDPایران کو دوگرپوں میں تقسیم کیا۔ ایک گروپ نے ایک انقلانی کمیٹی بنائی جس نے ایران کے
خلاف مسلح جدوجہد کا آغازکیا ، لیکن ایران نے ان کے خلاف سخت اقدام اٹھایا اور بارزانی نے جنوبی کردستان کے سرحدان کیلئے بند کردیئے تھے جس کے سبب ایران نے انتہائی جارحانہ انداز میں مزاحمت کو کچل دیا ۔ ایران کے خلاف مسلح جدوجہد نہ کرنے کے فیصلے نے عوام میں بڑی تعداد میں مایوسی پھیلادی اس دوران کرد ریڈیکل دانشوروں نے 1969ء کو Revolutiontary Organization Toilers of Kurdistanقائم کی ۔ اس جماعت نے ایران میں کرد سماج کو سیاسی حوالے سے منظم کرنے کی پالیسی اپنائی ، انہوں کسان اور خواتین کے یونین بنائے۔ اس کے بعد KDPایران اور ROTKکے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے ، KDPکا موقف تھا کہ ROTKکرد سماج میں طبقاتی مسئلوں کو اجاگر کررہا ہے جن کی ضرورت فی الحال نہیں ہے ۔ جس کے سبب KDPاور ROTKکے درمیان تنازعات شدت اختیار کرتے گئے 1984ء میں ’’کے ڈی پی‘‘ ROTK پر حملہ کرتا ہے اور کئی سالوں تک یہ تنازعہ جاری رہا جس کے سبب KDPایران کے دو جنرل سیکریٹری قتل ہوئے اور KDP کا تنظیمی ساخت کمزور پڑگیا بلاآخرKDPٹوٹ گیا ۔ لیکن ROTK قومی آزادی کے بجائے خودمختیاری کا دعوی کرتا ہے اور ایران میں سوشلزم کے قیام کا مطالبہ کرتا ہے ۔ لیکن اس جماعت کو عوامی سطح پر پذیرائی حاصل نہیں ہوتا ہے ازسر نو جدوجہد شروع کرنے بعد KDPبھی خودمختیاری کا مطالبہ کرتا ہے اور خودمختیاری کیلئے ایران کے سرکار سے مختلف معاہدات بھی ہوئے ہیں لیکن خودمختیاری حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے ہیں ۔
2004ء کو Party For a Free Life in Kurdistan(PJAK) کا قیام عمل میں لایا گیا جس نے ایرانی قبضے کے خلاف مسلح جدوجہدکا آغاز کیا اورمشرقی کے کردستان کے تمام علاقوں میں اپنا اثر و اسوخ قائم کیا ۔اس پارٹی کے قیام میں PKKکا بنیادی کردار ہے ۔
جنوبی کردستان میں تحریک عراق کا مقبوضہ علاقہ
پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ سلطنت عثمانیہ کے سابقہ علاقے بغداد، بصرہ اور کردستان کے موصل ریجن کو اپنے انتظام میں لیتا ہے ۔ 1919ء سلمانیہ کرد علاقے میں برطانیہ نے شیخ محمود کرد کو گورنر مقرر کیا، گورنرشیخ محمود نے 1919ء کو برطانیہ کے خلاف تحریک کا ابتداء کیا ۔ برطانیہ نے شیخ محمود کو گرفتار کرکے جلاوطن کیا ۔ تین سال بعد شیخ محمود کو رہا ہوکر 1930ء کو دوبارہ جدوجہد شروع کرتے ہیں اس مزاحمت کو ختم کرنے کیلئے برطانیہ اپنے فضائی اور زمینی فوج کو استعمال کرتا ہے۔ 1940 کی دہائی کے ابتداء میں عراق میں KDPکے قیام عمل میں لایا جاتا ہے ۔ لیکن 1946ء کو KDPمیں تضادات پیدائے ۔ KDP کی قیادت ایک کونسل کررہی تھی جس میں روایاتی قوم پرست اور سوشلسٹ نظریات کے حامل قوم پرست بھی شامل تھے روایاتی قوم پرستوں میں اہم کردار مصطفی بارزانی تھے ۔ KDPمیں تنازعہ اس وقت پیدا ہوا جب بارزانی نے کونسل کے اعتماد میں لیے بغیر بغداد کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ۔ کونسل میں موجود سوشلسٹ نظریات کے حامل قوم پرستوں نے اس کو پارٹی کے اصول کے منافی قرار دیا اور بارزانی پر الزام عائد کیا کہ وہ طاقت کا غلط استعمال کررہا ہے ۔ لیکن بارزانی نے کونسل کو تحلیل کرکے ایک نئی کونسل کا قیام کیا جس میں اپنے مخالفین کو شامل نہیں کیا گیا ، بارزانی نے اپنے مخالفین پر طاقت کا استعمال شروع کیا اور مخالفین ایران کے کرد علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ۔
1964ء تا 1975بارزانی مخالف گروپ کو عراقی کردستان کے شہری علاقوں میں ایک بہت بڑی عوامی حمایت حاصل تھی لیکن یہ عوام کو منظم کرنے اور ان کی قیادت کرنے میں ناکام رہے ۔ 1966ء کو انہوں بارزانی کے خلاف بغداد حکومت سے اتحاد قائم کیا ۔1968ء کو عراق میںIraqi Ba’ath Partyکی جانب سے حکومت کا انتظام کنٹرول کرنے کے بعد بارزانی اور حکومت میں خود مختیاری کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا گیا اور اس معاہدے پر عمل درآمد کی معیاد چار سال مقرر کی گئی ۔ بارزانی اور بغداد کے درمیان معاہدے کے بعد بارزانی کے مخالفین نے دوبارہ بارزانی گروپ میں شمولیت اختیار کی لیکن مخالفین میں شامل سوشلسٹ گروپ نے پس پردہ Kurdistan Toilers League کے نام سے جماعت قائم کی ۔1974ء کو بغداد نے تمام معاہدات منسوخ کرکے KDPکے خلاف جارحانہ فوجی آپریشن کا آغاز کیا ۔6مارچ 1975ء کو بغداد اور تہران کے درمیان Algiers Agreement طے پایا،ایران نے KDPکی مدد بند کردی جبکہ KDPنے بغیر کسی منصوبہ بندی کے جنگ کا اعلان کردیا اس کے سبب ہزاروں جنگجو عراق کے سامنے سرنڈر کرتے ہیں اور لاکھوں لوگ عراقی کردستان سے نقل مکانی کرکے ایرانی کردستان میں چلے جاتے ہیں ۔
Kurdistan Toilers Leagueکا موقف تھا کہ KDFُٓاپنے روایاتی انداز و فکر اور سوچ کے ساتھ کردستان کے قومی آزادی کی تحریک کو قیادت کرنے کا اہل نہیں ہے ۔ KDPکے کونسل کے ایک رکن جلال طلبانی جو کہ کونسل میں بارزانی کا سب سے بڑا ناقد رہا ہے ۔ جلال طلابانی اور KTL نے مشترکہ طورپر Patriotic union of Kurdistanکا قیام عمل میں لایا اور عراقی کردستان میں مسلح جدوجہد کا آغاز کیا جس کے کامیاب اقدام نے KDP کو دوبارہ مسلح جدوجہد پر مجبور کیا ۔ KDPکے مضبوط اثر و رسوخ Dohuk Governorateمیں تھا جبکہ PUKکے اثر و رسوخ Erbil ، Kirkukاور sulaymaniyahریجن میں تھا PUKکے عراقی کردستان کے علاقوں میں 75فیصد مضبوط اثر و رسوخ قائم تھا ۔
70ء کی دہائی میں عراق کے کرد علاقوں میں تباہ کن آپریشن نے شام ، ایران اور عراق کے سرحدی علاقوں میں 100سے زائد کرد علاقوں کو تباہ کیا ان کو پہاڑی علاقوں سے نکال کر میدانی علاقوں میں آباد کیا ۔ ستمبر 1980ء میں عراق اور ایران کے درمیان جنگ کا آغاز ہوا۔ جس سے ایران اور عراق ایک دوسرے کے خلاف جنوبی اور مشرقی کردوں کو استعمال کرتے تھے ۔ KDPاورPUKکے درمیان سیاسی طریقہ کار اور نظریاتی اختلافات شدید تھے ، ان کے درمیان شدید تضاد پایا جاتا تھا جواکثر ایک دوسرے کے خلاف طاقت کا استعمال کرتے تھے ۔لیکن ایران نے اپنے مفادات کیلئے جولائی 1987ء PUKاورKDPکے اتحاد پر مجبور کیا جس کے سبب ان دونوں نے کردستان فرنٹ کے نام سے اتحاد قائم کرلیا ۔
1987ء کو ایران اور عراق کے درمیان تنازعہ شدت اختیار کرتے ہیں تو عراق اندورونی طور شدید مسائل کا شکار ہوتا ہے ۔ عراق نے کردوں کے خلاف حتمی کاروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے آپریشن کا آغاز کیا ۔ فروری تا ستمبر 1988ء تک یہ آپریشن جاری رہا جس کے آٹھ مراحل تھے عراق نے کرد مزاحمت کے خلاف کرد ملیشیا قائم کیا جوآپریشن میں عراقی فوج کو مدد کرتاتھا ۔ اس آپریشن میں عراق کرد علاقہ Halabjaپر کیمیکل ہتھیار وں کا استعمال کرتا ہے ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 4ہزار سے 7 ہزار کرد قتل ہوئے ۔ ہیومن رائٹس واچ
کے ایک اور رپورٹ کے مطابق 1970تا 1990 ء کے درمیان عراق نے 50ہزار تا ایک لاکھ لوگ قتل کیے لیکن امریکن پروفیسرDavid McDowannاپنی کتاب A Modern History of Kurdsکے صفحہ نمبر 357تا360میں ذکر کرتا
ہے کہ یہ تعداد ایک لاکھ پچاس ہزار دولاکھ کے درمیان ہے ۔یہ کرد نسل کشی اتنا شدید تھا کہ یہ انسانی المیہ قرار دیا گیا تھا اس کے سبب لاکھوں کرد ایران ، عراق اور ترکی کے اہم شہروں سمیت یورپ میں نکل مکانی کرگئے ۔
1991ء گلف وار میں عرا ق کی شکست کے بعد کردوں کی جانب سے ایک شدید مزاحمت کا آغاز کیا جاتا ہے ۔ PUKاور KDP مکمل عراقی کردستان کو اپنے کنٹرول میں لیتے ہیں ان تمام مراحل کو تین ہفتوں میں تشکیل دیتے ہیں ۔ 1992ء کردستان ریجنل گورنمنٹ (KRG)کاقیام عمل میں لایا جاتا ہے ۔ (عراقی کردستان میں KRGکے دومتوازی ساخت ہیں۔ PUK اور KDP مشترکہ حکومت کررہے ہیں ۔)
KRGقائم ہونے کے بعد ان میں اختیارات کے حصول میں آپسی رسہ کشیاں بھی شروع ہوئے اور ان کے درمیان اختلافات بھی تھے۔
اس دوران عراق کی کوشش تھی ان علاقوں کو ترقی کے نام پر دوبارہ کنٹرول کیاجائے لیکن نائن الیون کے بعد یہ کوشش ناکام ہوئی ۔ جون 2002ء کو PUKاور KDPٰٓایک مشترکہ معاہدے میں فیصلہ کرتے ہیں عراق کے خلاف امریکی اتحاد شامل میں ہوجائے گے ۔ 9اپریل 2003ء امریکی اتحادی فوج کے عراق کا کنڑول سنبھالنے کے بعد کرد پیش مرگہ(پیش مرگہ کرد جنگجوہے جس کے معنی ہے موت کا سامنا کرنے والا) کچھ کرد علاقوں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں۔ 2005ء کو عراق میں عام انتخابات منعقد ہوئے اس الیکشن کے بعد عراقی آئین میں عراقی کردستان کی نیم خودمختیاری کو تسلیم کیا گیا واضح رہے کہ PUKکے بانی کرد رہنما جلال طلابانی 2005ء میں عراق کے صدر منتخب ہوئے ۔جون 2005ء میں کردش پارلیمینٹ کا پہلا اجلاس Erbil میں منعقد ہواجس میں KDP کے مسعود بارزانی خودمختیار کردستان کے صدر منتخب ہوئے جبکہ 2009ء کو دوسری اور2013ء کو تیسری مرتبہ بھی مسعود بارزانی صدر منتخب ہوئے ۔مئی2007ء کردش ریجنل گورنمنٹ کردستان کے تین صوبوں کی سیکورٹی کی ذمہ داری امریکہ سے واپس لیکر خود اپنے کنٹرول میں لیتی ہے۔ دسمبر 2005ء کردستان گورنمنٹ یہ اعلان کرتا ہے کہ کرد علاقوں میں تیل کے ذخائر برآمد ہوئے ہیں جون 2009ء بین القوامی مارکیٹ تیل کی فروخت شروع کرتا ہے ، یومیہ 90ہزار تا ایک لاکھ بیرل تیل عراقی پائپ لائن کے ذریعے ترکی میں منتقل کیا جاتا ہے اور عراقی حکومت اس شرط پراجازت دیتا ہے کہ عراقی حکومت کورینیو سے کچھ فیصد دیئے جائے، حالیہ وقت میں یومیہ چھ لاکھ بیرل تیل عراق و ترکی کے پائپ لائن کے ذریعے بحرہ روم کے ٹرمینلزتک برآمد کیا جارہا ہے ۔ اگست 2014ء کو داعش کرد علاقہ سنجر کو قبضے کرکے یزیدی کرد وں کو علاقہ بدر کیا جاتا ہے ،داعش کے خلاف کرد پیش مرگہ کو امریکہ عسکری مدد کرتا ہے ۔جبکہ جولائی 2014ء کوعراقی کردستان میں آزادی کیلئے ریفرنڈم کا اعلان کیا جاتا ہے لیکن داعش کے خلاف جنگ جاری رہنے کی وجہ سے ستمبر 2014 ء کو ملتوی کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں ۔ 2015ء کو کردش پیش مرگہ اور PKKامریکہ کے عسکری مدد سے سنجر کو دوبارہ داعش کے قبضے سے آزاد کرتے ہیں۔کردستان ریجنل گورنمنٹ کو داعش کے خلاف جنگ میں امریکہ، اسرائیل اور یورپی ملکوں کی عسکری مدد حاصل ہے۔اپریل 2017 ء روس کے مشہور کمپنی Rosneftعراقی کردستان کے گورنمنٹ کے ساتھ تیل منصوبے کیلئے ایک بلین ڈالر کا معاہدہ کرتا ہے خیال کیاجارہا ہے کہ اس معاہدے سے کردستان حکومت اقتصادی حوالے سے بہت زیادہ مستحکم ہوگا ۔ جون 2017ء کو کردستان کے
مختلف سیاسی پارٹیوں کا اجلاس صدر مسعود بارزانی کے صدارت میں منعقد ہوا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ 25ستمبر 2017کو آزادی کیلئے ریفرنڈم کیا جائے گا ۔لیکن امریکہ اور یورپی ممالک نے ریفرنڈم کی مخالفت کرتے ہوئے اسے عارضی طور پر ملتوی کرنے کیلئے کہا ہے کیونکہ ان ممالک کا موقف ہے کہ اس سے داعش کے خلاف جنگ متاثر ہوگا ۔ریفرنڈم کے حوالے سے روس کی پالیسی واضح نہیں ہے ریفرنڈم کے حمایت اور مخالفت دونوں نہیں کیے گئے ہیں ۔ جبکہ اسرائیل اور فرانس نے ریفرنڈم کی حمایت کی ہے واضح رہے کہ اسرائیل اپنی ضرورت کے 77فیصد تیل کردستان سے درآمد کرتا ہے ۔ جبکہ عراق ، ترکی اور ایران براہرست اس ریفرنڈم کی مخالفت کررہے ہیں وہ اس ریفرنڈم کی اپنے علاقائی خودمختیاری کے حوالے سے خطرہ محسوس کررہے ہیں ۔25ستمبر2017 ء ریفرنڈم منعقد ہوا جس میں 90فیصد سے زائد نے آزادی کے حق میں ووٹ ڈالے لیکن یہ واضح رہے کہ اس ریفرنڈم سے فوری طور پر آزادی ممکن نہیں ہے یہ صرف ایک مینڈیٹ ہوگا جس سے آزادی کیلئے بات چیت کا آغاز کیا جائے گا ۔