چندر شیکھر آزاد سے ضیاءالرحمان عرف دلجان تک – زوہیب بلوچ

410

چندر شیکھر آزاد سے ضیاءالرحمان عرف دلجان تک

تحریر: زوہیب بلوچ

چندر شیکھر آزاد آگ لگانے والے انقلابی تھی، جس نے اپنے ملک کے آزادی کیلئے زبردست لڑائی لڑی. بھگت سنگھ کے اس ہم عصر کے زندگی کا مقصد یہ تھا کہ وہ برطانوی حکومت کیلئے زیادہ سے زیادہ مشکلات پیدا کر سکے. ان کی مشہور تقریر، ‘دوشنمان کی گلون کا سلمنا ہمارا کرینگ، / آزاد ہیلو راہ ہو، اور آزاد ہیلو راجن’، جس کا ترجمہ ‘میں دشمنوں کی گولیوں کا سامنا کروں گا، میں آزاد ہوں اور میں ہمیشہ آزاد ہوں’. انہوں نے اپنے معاصروں کے دلوں میں قوم پرستی کا سخت احساسات کو جنم دیا۔.

چندر شیکھر آزاد، چاند شکر ٹویری، 23 جولائی، 1906 کو پانڈاٹ سٹی رام تیاری اور مدھدی پردیش کے جاوواو ضلع کے بھور گاؤں میں پیدا ہوئے. جنہوں نے اپنے علاقے میں رہنے کے دوران تیر اندازی کے ساتھ ساتھ کشتی رانی سیکھا. انہوں نے بھورہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی. اعلیٰ تعلیم کے لئے وہ وارانسی میں ایک سنسکرت پااسشالہ گئے. ایک طالب علم کے طور پر وہ اوسط تھا لیکن ایک بار بنیرس میں، وہ بہت سے نوجوان قوم پرستوں کے ساتھ رابطے میں آگئے پھر آزادی کے شاہراہ پر ہولیئے۔

27 فروری، 1 9 31 چندر شیکھر آزاد دوستوں کے ساتھ ملاقات کر رہے تھے. پہلے سے باخبر پولیس نے پارک کو گھیر لیا اور چندر شیکھر آزاد کو ہتھیار ڈالنے کو کہا. آزاد اپنے دوست کو محفوظ راستہ دینے کے لئے آزادی سے لڑا اور تین پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا. اگرچہ ان کی شوٹنگ کی مہارت بہت زیادہ تیز تھی لیکن وہ سخت زخمی ہوگئے. اسکی گولیاں ختم ہونے کے بعد فرار ہونے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا،تو اس نے اپنی آخری گولی سے خود کو گولی مار دی۔

شہید ضیاءالرحمان عرف دلجان ایک گوریلا انقلابی اور محنتی تھے۔ انہوں نے شہادت کا بلند مرتبہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فرائض انجام دیتے ہوئے حاصل کیا، آپ کے حوصلے بہت بلند تھے، اپنی جان وطن پر نچھاور کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنی دھرتی اور اپنے خاندان کا سر فخر سےاونچا کردیا۔ وہ ایک عظیم بیٹا، ایک عظیم لیڈر، ایک عظیم کمانڈر اور ایک عظیم دوست تھے۔ آپ تو ہم سے جسمانی طور پر الگ ہوئے، پر آپکی سوچ ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔
19 فروری 2018 شہید دلجان اپنے دوستوں سے حال حوال کے لیے نیٹورک پر آیا تھا جب دشمن فوج نے انکو گھیرے میں لے لیا۔ تین گھنٹے تک جھڑپ ہونے اور گولیاں ختم ہونے کے بعد شہید نے اپنی آخری گولی سے خود کو مار دیا۔

اسی طرح پھلین شہید امیرالملک، شہید عرفان جان، شہید امتیاز جان، شہید بارگ جان اور شہید دلجان( ٹک تیر )نے آپنے بندق کی آخری گولی اپنے حلق میں اتار دی تاکہ تنظیمی رازوں کو حلق میں رکھ کر اپنے حلق کو چیر کر تنظیمی رازوں کو راز میں رکھا۔

سچائی یہ کہ ھم نے بہت کچھ کر دکھایا اور آگے بھی کرینگے ھم انصاف پانے کے لئے لڑتے رہیں گے، مرتے دم تک آخری گولی تک اب سے سب کو اپنا اپنا راستہ چننا ہوگا. اس راستے پہ چلنا آسان نہیں، مشکل ہے پر ناممکن نہیں۔ جب تم اپنے ملک کے لیے لڑتے ہو تو تم اپنے آنے والے نسل کے لیے لڑتے ہو. اور یہ اپنے ذات سے نکل کر آنے والے نسلوں کی لڑائی لڑنا سب سے مقدس اور سب سے معتبر لڑائی ہے، جو ہر زمان و مکاں میں آزمائش کے کسوٹی پر بس حق اور جائز پر آکر ہی رکا ہے اور فتحیات ہوا ہے۔