پاکستان کے قومی اسمبلی کو بتایا گیا ہے کہ وفاقی دارالحکومت سمیت ملک کے چاروں صوبوں میں گذشتہ پانچ سال کے دوران بچوں سے زیادتی کے 17862 واقعات رپورٹ ہوئے۔
رپورٹ ہونے والے 10620 واقعات لڑکیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ اسی عرصے کے دوران 7242 لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق وقفۂ سوالات میں وزارت انسانی حقوق کی طرف سے پیش کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق اس عرصے کے دوران پولیس کے پاس زیادتی کے 13263 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
پچھلے مہینے قصور میں کم سن بچی زینب کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی، جس کے بعد حکومت پر عوامی اور سیاسی دباؤ میں اضافہ ہو گیا تھا۔
اس کے بعد مردان میں بھی اسی قسم کا ایک واقعہ پیش آیا تھا، جس سے ظاہر ہوا تھا کہ یہ واقعات کسی ایک علاقے تک محدود نہیں بلکہ پورے ملک میں رونما ہوتے ہیں۔
تاہم بدھ کو وزارت انسانی حقوق کی طرف سے دیے گئے اعداد و شمار میں اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ لڑکے اور لڑکیوں کے ساتھ جنسی تشدد کے سب سے زیادہ واقعات کس صوبے میں ہوئے ہیں۔
صوبہ پنجاب کے شہروں قصور اور اوکاڑہ میں لڑکوں کے ساتھ جنسی تشدد کی ویڈیو بھی سامنے آئی ہیں جس میں ملوث افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ قصور میں بچوں پر جنسی تشدد کے دوران ویڈیو فلمیں بنانے کے واقعات میں ملوث تین مجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
انسانی حقوق کی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق بچوں پر تشدد کے مقدمات میں صرف 112مجرموں کو سزا ہوئی جن میں سے 25 مجرموں کو سزائے موت، 11 کو عمر قید جبکہ باقی مجرمان کو سزائیں سنائی گئی ہیں۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ممتاز احمد تارڑ کا کہنا تھا کہ ملک میں بچوں سے زیادتی کے واقعات سے متعلق صورت حال افسوسناک ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ملک میں بچوں سے متعلق قوانین موجود ہیں لیکن عمل درآمد نہیں ہوتا۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پولیس کی ناقص تفتیش اور عدالتی نظام کی کمزوریوں کی وجہ سے ان واقعات کے سدباب میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قومی کمیشن اس وقت قائم ہو گا جب اس کمیشن کی تشکیل کے لیے پنجاب اور سندھ اپنے نام بھجوائیں گے۔
دوسری طرف قومی اسمبلی میں تحفظ اطفال بل 2017 متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ اس بل کا اطلاق وفاقی دارالحکومت کے علاقے پر ہو گا۔
اس بل کے تحت بچوں کے تحفظ کے اقدامات کیے جائیں گے جن میں بچوں کے لیے مخصوص تربیتی مراکز بھی شامل ہیں۔
قومی اسمبلی نے کم سن افراد کے لیے نظام انصاف کا بل 2017 بھی متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے۔