پاکستان اور افغانستان کے ورکنگ گروپ کا پہلا اجلاس کابل میں

260

پاکستان اور افغانستان کے مشترکہ ورکنگ گروپس کا پہلا اجلاس اتوار کو کابل میں ہو رہا ہے جس میں پاکستانی وفد سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کی سربراہی میں شریک ہو رہا ہے۔

اسلام آباد نے کابل کے ساتھ پانچ مشترکہ ورکنگ گروپ تجویز کیے تھے جن کا مقصد انسداد دہشت گردی، خفیہ معلومات کے تبادلے، فوجی، معاشی، اقتصادی، تجارتی، راہداری روابط، پناہ گزینوں کی واپسی اور باہمی روابط پر توجہ دینا ہے۔

پاکستان کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا تھا کہ پاکستان اس موقف پر قائم رہا ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام کا حصول فوجی طریقے سے ممکن نہیں اور اسے یقینی بنانے کے لیے افغاںوں کی شمولیت اور زیر قیادت امن عمل ہی واحد راستہ ہے۔

ایک اجلاس ایک ایسے وقت ہونے جا رہا ہے جب افغانستان کی طرف سے اپنے ہاں ہونے والے حالیہ دہشت گرد واقعات میں پاکستان کی طرف انگشت نمائی کی جا رہی ہے اور جمعہ کو ہی افغان صدر اشرف غنی نے قوم سے اپنے خطاب میں دعویٰ کیا تھا کہ “پاکستان طالبان کا مرکز ہے” اور عسکریت پسندوں سمیت دیگر دہشت گرد گروپوں کے خاتمے کے لیے عملی اور واضح اقدام کرنا ہوں گے۔

انھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ طالبان عسکریت پسند پاکستان کو اپنے ایک ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

پاکستان ایسے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتا آیا ہے کہ وہ افغانستان میں قیام امن اور اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے عزم پر قائم ہے۔

افغان صدر کا کہنا تھا کہ شورش پسندوں اور ان کے نیٹ ورک سے متعلق معلومات کا پاکستان سے تبادلہ کیا جا چکا ہے اور ان کے بقول پاکستان “کھوکھلے وعدے کرنے کی بجائے ان کے خلاف ٹھوس اور واضح کارروائیاں کرے۔”

رواں ہفتے ہی افغان انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ اور وزیر داخلہ نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔

پاکستان نے طالبان یا حقانی نیٹ ورک کی طرف سے افغانستان کے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کے الزامات کو بھی رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے ہاں تمام دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائیاں کرتا چلا آ رہا ہے۔