پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ ایک اہم دفاعی کانفرنس میں شرکت کے لیے منگل کو افغانستان پہنچے ہیں۔
کابل میں ہونے والی ‘چیف آف ڈیفنس’ کانفرنس میں امریکی سینٹرل کمان کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل، افغانستان میں بین الاقوامی افواج کے کمانڈر جنرل جان نکولسن اور افغان فوج کے سربراہ جنرل شیر محمد کریمی بھی شرکت کر رہے ہیں۔
یہ کانفرنس ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب جنگ سے تباہ حال اس ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔ حالیہ ہفتوں میں صرف دارالحکومت کابل میں ہی تین بڑے مہلک دہشت گرد حملے ہو چکے ہیں جن میں 140 کے لگ بھگ افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔
اسی دوران ملک کے مختلف حصوں میں بھی عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کی اطلاعات آئے روز سامنے آتی رہی ہیں اور طالبان کو امن عمل میں شامل کرنے کے لیے مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششیں بھی تاحال بار آور ثابت نہیں ہو سکی ہیں۔
کابل میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد افغان وزیرِ داخلہ اور انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ اسلام آباد آئے تھے اور انھوں نے ان حملوں سے متعلق بعض شواہد کا پاکستانی حکام سے تبادلہ کیا تھا جن میں ان حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے پاکستانی سرزمین استعمال ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
تاہم پاکستانی عہدیداروں نے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ شواہد قابلِ اعتماد نہیں لیکن اگر افغانستان چاہے تو پاکستان ان حملوں کی تحقیقات میں معاونت کے لیے تیار ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں پاکستانی سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ ایک وفد کے ہمراہ کابل گئی تھیں جہاں دونوں ملکوں کے درمیان ورکنگ گروپ کا پہلا اجلاس ہوا تھا جب کہ نائب افغان وزیرِ خارجہ حکمت خلیل کرزئی کی سربراہی میں ایک وفد نے گزشتہ ہفتے اسلام آباد کا دو روزہ دورہ کر کے مختلف باہمی امور پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
افغان وفد کے دورے کے بعد پاکستان کی طرف سے صرف اتنا کہا گیا تھا کہ مذاکرات اچھے رہے جن میں بعض امور پر اتفاق ہوا جب کہ بعض پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
لیکن افغان وزارتِ خارجہ نے کہا تھا کہ “باہمی تعاون کے لائحۂ عمل پر کچھ پیش رفت کے علاوہ دیگر بامعنی امور پر کوئی نتیجہ خیز بات چیت نہیں ہوئی۔”
پاکستان کا اصرار ہے کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور اسے افغانوں کی شمولیت سے بات چیت کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے جس کی حمایت کے لیے اسلام آباد اپنے عزم پر قائم ہے۔