پاکستانی لیفٹیسٹ اور بلوچ قومی سوال __ شہیک بلوچ

326

بلوچ قومی سوال کے حوالے سے قابض ریاست مختلف سطحوں پر کام کررہا ہے جس میں بائیں بازو کا سلو پوائزن بھی پیش پیش ہے۔

بائیں بازو یا پھر ترقی پسندانہ دعوئوں کے سہارے بلوچ تحریک پر اثر انداز ہونے کے لیے کبھی سوشلسٹ بن کر تو کبھی ترقی پسندی کا نعرہ لگا کر بظاہر تو قومی تحریک سے ہمدردی ظاہر کیا جاتا ہے لیکن عملا بلوچ تحریک کے خلاف کھڑا ہونا اور قابض ریاست کے خلاف ہر طرح کے عمل کو مزدوری کے کھاتے میں ڈال کر زہر افشانی کرنا قابل غور امر ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ حضرات خواہ سوشلسٹ ہوں یا پھر ترقی پسند لبرل وغیرہ ان کا اصل مقصد کیا ہے؟

کیا یہ ایک نیا معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں؟ اس کے لیے ہمیں ان کے دعوئوں کے برعکس ان کے عمل کو دیکھنا چاہیے کیونکہ اگر یہ فرسودہ روایات کے خلاف ہیں تو کیا ان کے عمل میں کوئی جدت پسندی ہے؟ ان کی مجموعی جدوجہد آج کس تنظیمی سطح تک پہنچ چکی ہے؟ یہ کس مقام پر کھڑے ہیں؟

عملی طور پر انہوں نے محکوم قوموں و اقلیتوں کا کس حد تک اور کہاں ساتھ دیا؟

حقیقی مسائل پر کس حد تک توجہ دی؟

عملی سطح پر ان کا کوئی نام و نشان نظر نہیں آتا بلکہ چند ایک پروگرامز کے ذریعے اپنے وجود کو ظاہر کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی جامع پروگرام نہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ ریاست کے پالیسیوں سے زیادہ محکوموں کی جدوجہد کو نشانہ بناتے ہیں، اگر کوئی واقعہ ہوتا ہے تو واقع کے پس پردہ حقائق کو سمجھنے کی بجائے یہ سطحی رائے قائم کر لیتے ہیں۔ ابتدا میں یہ بات تسلیم کرلیا جاتا تھا کہ یہ غیر شعوری طور پر ایسا کررہے ہیں لیکن اب واضح ہورہا ہے کہ یہ شعوری طور پر اب بلوچ جدوجہد کے خلاف اٹھ کھڑے ہوچکے ہیں اور ماضی کی ہمدردیاں محضpenetration کی حد تک تھیں تاکہ یہ تحریک پر اثرانداز ہوسکے لیکن انہیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ بلوچ تحریک کوئی عارضی ایڈونچرزم نہیں بلکہ یہ اس دھرتی ہی کی پیداوار ہے اور اسے باہر سے کوئی کنٹرول نہیں کرسکتا تب یہ کسی حد تک واضح طور پر سامنے آنے لگے۔ یہاں تذکرہ ان نام نہاد سوشلسٹوں کا جو کہ ٹراٹسکائیسٹ یا سٹالنسٹ گروہوں سے تعلق رکھتے ہوں لیکن انہوں نے کہیں پر بھی بلوچ جدوجہد کا ساتھ نہیں دیا اور اس حوالے سے ان کا بہانہ ریاستی جبر تھا گویا یہ ان کا انقلابی فکر تھا جو جبر کے خلاف کھڑا ہونے کی بجائے جبر کے خلاف کھڑے ہونے والوں کے خلاف بہ آسانی چیخ و پکار شروع کردیتا تھا۔

سی پیک جیسے توسیع پسندانہ پروگرام کی راہ میں جب بلوچ جہد رکاوٹ بن گئی تب ان کی قلم کا رخ یہاں پھر گمراہ کن حد تک حقائق کو مسخ کرنے لگا اور انہوں نے سی پیک کو مزدور پیک بنا دیا گویا سی پیک پر حملہ مزدوروں پر حملہ ٹہر کر گناہ بن گیا لیکن کہیں بھی یہ واضح نہیں ہوا کہ ایسے منصوبوں سے کب اور کہاں مزدور طبقے کو فائدہ پہنچا؟

اگر سی پیک کے ثمرات مزدور طبقے کے لیے ہیں تو پھر بات سمجھ میں آتی ہے لیکن جب یہ پروگرام سامراجی مشین کو مزید ایندھن فراہم کریگا تو ایسے میں کون غلط ہے وہ بلوچ جہدکار جو اسے روکھ رہا ہے اپنے عمل سے یا وہ سوشلسٹ جو سامراجیت کو سرمایہ داری کی انتہائی سطح سمجھنے کے باوجود ایسے سامراجی منصوبے کو مزدوری کی آڑ میں پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہے؟

جہاں تک بات ہے قومی سوال کی تو اس حقیقت کو تسلیم کوئی کرے یا نہیں لیکن اس سے حقیقت پر فرق نہیں پڑتا کیونکہ بلوچ قومی جدوجہد خالصتا نیشنلسٹ جدوجہد ہے جو انسانی اقدار کے تحت جاری ہے