ضیاء ۔نجانے اس ایک لفظ کی تشریح کو سمجھنا آج اتنا مشکل کیوں ہو رہا ہے۔ کبھی سوچتا ہوں کہ شاید اس ایک لفظ میں دنیا بھر کی اتنی روشنی سمائی ہوئی ہے کہ ذہن سمجھ اس روشنی کو قبول نہیں کر پا رہے ، اور کبھی سوچتا ہوں کہ زمین کی تہہ سے سطح تک اور اس سطح سے فلک تک اور فلک سے کائنات کے آخری حد تک جتنی تاریخی ہوگی اس لفظ میں سما ئی ہوئی ہے تب ہی اس لفظ کو سمجھنا اس قدر نا ممکن لگ رہا ہے۔ آج معلوم ہوا کہ یہ چند الفاظ جو میں سیکھ چکا ہوں ایک لفظ کے سامنے ہی سر جکا گئے آج اس ذہن اس علم اس شعور کا اختیار کس قدر محدود لگ رہا ہے ۔بہت کچھ کہنے کی خواہش ہے، بہت کچھ لکھنے کو جی چاہ رہا ہے مگر، لکھوں تو کیا لکھوں، کہوں تو کیا کہوں آج وہ وقت نہیں کہ ضیا کو سمجھنے کے لئے ضیا سے ہم کلام ہو سکوں کچھ پوچھ سکوں اپنی کیفیت بتا سکوں اور نہایت ہی پرسکون اور خاموشی کے ساتھ میر ے وجود میں برپا اس شوروکو سن کر پیار سے چند ہی الفاظ میں اپنی پوری بات کہہ کر سمندر کے لہروں سی اس کیفیت سے ،اس بے چینی سے مجھے آزاد کرا سکے۔
ضیا ایک ایسا نام جس کو سنے سالوں ہو چکے تھے ضیا ایک ایسا چہرہ جسکو دیکھے عرصہ گزر چکا ضیا ایک ایسی آواز جسے سننے کے لئے کان ترس گئے تھے بس یاد تھا تو ایک ہی لفظ ضیا۔اور اس لفظ کو جتنا محدود سمجھ سکا صرف اتنا ہی سمجھ سکا کہ ضیا کا مطلب ہی ضیا ہے جسکی روشنی محسوس کی جا سکتی ہے جسکی چمک سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں جسکی حرارت سے راحت مل سکتی ہے اور جسکے رنگ سے یہ بے رنگ دنیا رنگین ہو سکتی ہے مگر جسکو مکمل جاننا، سمجھنا، حاصل کرنا کسی کے بس میں نہیں۔
کہتے ہیں دنیا میں وہی عظیم شخص ہوتے ہیں جنکی زندگی اور خدمات دوسرے لوگوں کے لئے قربان ہوتی ہے جنکو بزدلی و بہادری کے درمیان فرق کا علم ہوتا ہے جنہیں ظا لمیت ومظلومیت کا احساس ہو تا ہے جنہیں آزادی و غلامی کا شعور ہوتا ہے جو محبت و نفرت کے اصولوں سے واقفیت رکھتے ہیں۔ اور ایسے عظیم شخصیات کی پیدائش سالوں یا صدیوں میں ہوتی ہوگی ۔ وہ ماں کتنی خوش قسمت ہوگی جسکی کوکھ سے ایسا فرزند جنم لے رہا ہو۔ وہ خاندان وہ دوست احباب سے خداکس قدرخوش ہوگا جنکے نصیب میں ایسے شخصیات کی سنگت عطا کی ہوگی اور اس سر زمین کی اس وقت کیا کیفیت ہوگی جس پر بیشمار بے حسوں کے بعد ایک ایسی شخصیت نے قدم رکھا ہوگا۔
آج سے تقریبا ۰۳ سال قبل بلکل ایسی ہی خوشی کا احساس ایک ماں کو ہوا گا جب اسنے ایک شخص ضیاء کو جنم دیاہوگا اور اس خوش نصیبی کا احساس اس والداور اس کے خاندان کو ضرور ہوا ہوگا تب ہی تواس نام ضیاء پر متفق ہوئے ہونگے اور اس سر زمین کا سر فخر سے اس وقت کس قدر بلند ہوا ہوگا جب ضیا کا سایہ زمین پر پڑھ کر زمین کو روشن کیا ہوگا اوراس زمین کے سامنے چرخ کہن بھی شرمندہ ہوا ہوگا کہ کاش اس شخص کے پاوٗں کی دھول اسے بھی مہکا دیتا اس ضیا کا سایہ اسے بھی روشن کر دیتا۔
دنیا کی نظروں کے سامنے رہتا یہ عام سا چہرہ ہر وقت ایک مسکراہٹ چہرے پر لیا ہوتا تھا۔اس کی اس مسکراہٹ کی مٹھاس سے میں اسی وقت واقف ہو چکا تھا جب پہلی بار اس سنگت کا دیدار ہوا اور ہم کلامی کے بعد معلوم ہوا کہ اس مسکراہٹ کے پیچھے لا محدود شعور چھپا ہوا ہے ۔ مگر اس سنگت کی سوچ اسکے مقصد اسکی منزل کا اندازہ اس وقت لگانا نا ممکن تھا۔ یوں تو سنگت اس طرح تیاری کے ساتھ بچھڑا کہ یقین ہوچلا تھا کہ سنگت اپنی تعلیم مکمل کر نے کے بعدکسی نوکری کی تگ و دو میں ہے اور دنیا جہاں کی طرح اس سنگت کو بھی اب فکر ہو گیا ہے کہ اب کچھ وقت اپنے بچوں اور خانداں کے نام وقف کردوں اس زمہداری کوپورا کروں جس زمہداری کا احساس ہر عام شخص کو با شعور ہونے پر ہو جاتا ہے۔ مگر مجھ سمیت یہ دنیا اس بات سے انجان تھا کہ وہ کوئی عام شخص نا تھا بلکہ وہ عظیم شخص ضیاء تھا جسکا مقصد اس قدر محدود نا تھا اسکی منزل اتنی قریب نا تھی وہ تو بڑے منزلوں کے مسافروں میں سے ایک مسافر تھا۔جو دنیا کی نظروں سے اوجھل ہو کر ضیا کے نام کو گمنام کر کے دلجان کی شکل میں ایک قرض اتارنے ، سر زمین بلوچستان کی دفاع کرنے اور اس مادر وطن پر دشمن کی ناپاک نظروں کو آنکھوں سمیت نکال باہر پھینک کرتباہ و برباد کرنے جا چکا تھا۔وہ تو اپنی زندگی بجائے بیوی ، بچے، ماں ،باپ بھائی بہن کے نام کرنے کے قوم کے نام کر گیا تھا۔ اس قوم کے نام جو حقیقت سے کوسوں دور اپنی زندگی میں مگن تھا۔جسے اپنے مظلومیت کا احساس تھا نا کہ مادر کی غلامی کا شعوراور نا ہی ان عظیم دھرتی کے فرزندان وطن ضیا و امیر،شکور و حق نواز،جاوید و نثار سمیت ہزاروں نامی و گمنام سپائیوں کے حوصلے،جزبے ، ارادے اور مقصد سے واقفیت رکھتا تھا جو انکے لئے اپنا سب کچھ قربان کر کے انکی حفاظت پر ہر وقت مامور تھے۔جو اس قوم کے پر سکون نیند کے لئے تاریخی رات میں بیدار دشمن پر نظریں جمائے بندوق ہاتھ میں لئے اس قوم کے دشمن کو نیست و نابود کرنے کے لئے تیار تھے اور نجانے کتنی بار کتنے کتنے گھنٹے، کتنے کتنے دنوں تک دشمن کی یلغار کے سامنے ڈٹے رہ کر اسکا منہ تھوڈ جواب دیتے رہتے تھے ۔ دشمن ہمیشہ سرزمین بلوچستان کو خون سے نہلانے کی نیت سے تو آتامگر ہار کر بھاگ نکل جانے پرمجبور ہو جاتاکیوں کہ اس سر زمین کی حفاظت میں سرمچار بیدار تھے اور ہار تو دشمن کے مقدر میں تھاکیونکہ ان سرمچاروں میں سے ایک سرمچار کمانڈر ٹک تیر تھا اور ٹک تیر سے دشمن فوج بخوبی واقف تھا۔
دشمن کی مکمل تیاری، بے شمار فوجیاں ،جدید ہتھیاریں، ہیلی کاپٹر اور جیٹ طیارے بھی ٹک تیر اور اسکے سنگتوں کے حوصلوں سے نا بچ سکے اور دشمن ہر بار ٹک تیر کا نشانہ بن کر ہار ماننے پر مجبور ہو جاتا تھا۔
دشمن جانتا تھا کہ ٹک تیرصرف ایک خطاب نہیں بلکہ
آزادی کی ایک کرن ہے ٹک تیر،
بہادری کا نشان ہے ٹک تیر،
ماوٗں کی دعا ہے ٹک تیر،
،سرمچاروں کا حوصلہ ہے ٹک تیر،
سوچ نظریہ ایک امید ہے ٹک تیر ،
سینہ دشمن پر برستا تیر ہے ٹک تیر۔
ٹک تیر سنگت ضیا دلجان بلوچ زندگی کی اس حقیقت سے بخوبی واقف تھا کہ زندگی کبھی بھی دغا دے کر ساتھ چھوڈ سکتی ہے اور انسان دنیا سے ہمیشہ کے لئے مٹ جاتا ہے مگر مٹنا تو عام لوگوں کی صفت ہے اور عظیم شخص تو امر ہو جاتے ہیں تو ٹک تیر کیوں نا امر ہوتا۔ا س امر کی چاہت نے، زمین کی محبت نے ایک بار پھر ٹک تیر کو مجبور کر دیا کہ اسی زمین پر قدم رکھے جہاں وہ پیدا ہوا تھا، جہاں اسکا بچپن گزرا تھا جہاں کی زمین اب پیاسی تھی اور اس پیاس کو ضیا ہی بجھا سکتا تھا دلجان ہی بجا سکتا تھا ٹک تیر ہی بجھا سکتا تھا۔انیس فروری کی صبح ایک بار پھر ضیا ہنستے مسکراتے سنگتوں کے ساتھ خوش گپیاں کرتے اس سرزمین پر پہنچ گیا جہاں مادر وطن کے ساتھ ساتھ دشمن بھی اسکے انتظار میں تھے۔ضیاء دلجان کو مادروطن سے اپنی محبت کا اظہارکرتے ،اسکی خوبصورتی، اسکی مہک،اس سے ہمکلامی سے لطف اندوزی میں تھوڈا ہی دیر گزرا تھا کہ دشمن بڑی تعداد میں ناپاک ارادوں کے ساتھ حملہ آور ہوا کہ شاہد اس بار دشمن کو کامیابی ملے اور کوئی سنگت یا تنظیمی راز اسکے ہاتھ لگے گا مگر سنگت ٹک تیر اور بارگ جان کے حوصلے اور بہادری نے دشمن کو حواس باختہ کر دیا اور دشمن کو ایک بار پھر زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا۔سنگت ٹک تیر اور سنگت بارگ جان نے اکٹھے دشمن کی اتنی تعداد اور جدید ہتھیاروں کا مقابلہ اس وقت تک کیا جب تک انکے بندوق کی ایک ایک گولی دشمن کا سینہ چھیرتی نا گئی ۔مقدس تنظیم کی طرف سے ملی ہر ایک گولی کا قرض ادا کرنے کے بعد دونوں جانبازوں نے تنظیموں رازوں کو دشمن کی شر سے محفوظ رکھنے اور اپنے سینے میں دفن کرنے کے لئے اس آخری گولی جو ہر سرمچار کی امانت ہوتی ہے بندوق میں ڈال کر ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مسکراتے ،دشمن کی ہار کا جشن مناتے، آزادی کے خواب لئے وطن کی ہواوٗں میں اپنی مہک چھوڈ کر سرزمین کی پیاس اپنے لہو سے بجھاتے تاریخ میں امر ہو گئے اور ہمارے لئے ایک سوال چھوڈ گئے کہ
کیا چاہتی ہے ہم سے ہماری یہ زندگی
کیا قرض ہے جو ہم سے ادا نہیں ہو رہا۔