کراچی میں نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف اسلام آباد میں ہونے والے محسود قبائل کے دھرنے میں متحرک نوجوان آفتاب محسود پراسرار طور پر قتل ہوگئے۔
ڈیرہ اسمٰعیل خان کے صدر پولیس اسٹیشن کے ایک اہلکار عطااللہ نے ڈان کو بتایا کہ آفتاب محسود کی نقشبند ٹاؤن میں ایک زیرِ تعمیر گھر سے گولیوں سے چھلنی لاش برآمد ہوئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مقتول کی لاش کے نزدیک سے ایک پرچی بھی ملی جس پر اس کا نام، اس کے والد کا نام اور اس کا ٹیلی فون نمبر لکھا ہوا تھا۔
آفتاب محسود کے والد خیر بادشاہ محسود نے پولیس کو بتایا کہ ان کا بیٹا جمعہ کی رات کو گھر سے کہیں گیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں اگلے ہی روز ایک فون کام موصول ہوئی، جس میں بیٹے کی لاش کے حوالے سے اطلاع دی گئی تھی۔
آفتاب محسود ڈیرہ اسمٰعیل خان کی گومل یونیورسٹی کا طالبِ علم تھا، اور وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کی ایجنسی جنوبی ویزرستان کے علاقے مکین کا رہائشی تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں مبینہ طور پر ماورائے عدالت نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد آفتاب محسود نے اسلام آباد میں ہونے والے دھرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
نقیب اللہ محسود کے قاتلوں کی گرفتاری کے علاوہ دھرنے میں موجود شرکاء نے فاٹا سے لاپتہ ہونے والے افراد کی بازیابی کا بھی مطالبہ کیا تھا۔
علاوہ ازیں مطاہرین نے سیکیورٹی چیک پوسٹس پر قبائلی عوام کے ساتھ مبینہ طور پر ہونے والے ناروا سلوک کے خلاف بھی احتجاج کیا تھا۔
اعلیٰ حکومتی عہدیداران کی جانب سے مظاہرین کے کچھ مطالبات کو پورا کرنے کی یقین دہانی کے بعد اسلام آباد میں اس 10 روز طویل دھرنے کو ختم کردیا گیا تھا۔
ڈیرہ اسمٰعیل خان کی پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف آفتاف محسود کے قتل کا مقدمہ درج کرلیا ہے۔