بلوچستان میں لوگوں کی گمشدگی کوئی نئی بات نہیں آئے دن درجنوں انسان غائب ہو جاتے ہیں پهر ان کا نام و نشان نہیں ملتا اُنہیں زمین کھا جاتی ہے یا آسمان نگل جاتا ہے کسی کو کوئی کچھ خبر نہیں ہوتا بہت کم ایسے خوش نصیب ہوتے ہیں جن کے پیارے سالوں بعد زنده سلامت لوٹ آتے ہیں اور اب خوش نصیبوں کے زمرے میں وه لوگ بهی آتے ہیں جن کے عزیز و اقارب انہیں مرده حالت میں پائے جاتے ہیں جس سے اُنہیں اپنے لاپتہ شخص کی لاش آنہیں آخری نشانی کی صورت میں مل جاتا ہے۔
انہی گمشده لوگوں میں اب ایک عزت(میں ہمیشہ اُسے اسی نام سے جانتا تها) بهی ہے جسے پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں اور سندھ رینجرز نے کراچی سے اُس کے تین ساتهیوں حسام، نصیر اور رفیق کے ساته اغوا کیا تب سے وه کہاں اور کس حال میں ہیں خُدا اور وہی خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے علاوه کسی کو خبر نہیں ہے، عزت بلوچ بی ایس او آزاد کے موجوده مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں بی ایس او آزاد جو ایک پرامن سیاسی تنظیم ہے اور بلوچستان میں فعال ترین اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن ہے جو قومی آزادی کی بات کرتا ہے لیکن بی ایس او کے دوستوں پر ریاستی کریک ڈاؤں بهی نئی بات نہیں ہے جب سے تنظیم نے اپنے لوگوں کے حقوق اور عدل و انصاف کی بات کرنی شروع کی ہے اُسی دن سے آج تک تنظیم کے دوستوں کو اغوا و قتل کرنا جاری ہے عزت کا جُرم یہ ہے کہ وه اسی تنظیم سے وابستگی رکهتا ہے جو مراحات کے بجائے انصاف کے پیچهے جاتا تھا جو طالب علموں کی حقیقی معنوں میں رہنمائی کرتا تھا بلوچستان میں جو بهی بلوچ اپنے حقوق کی باتیں کرتے ہیں اُسکی سزا یہی ہے جو آج عزت سہ رہا ہے عزت بهی اسی جرم کا مرتکب ہوا ہے۔
عزت بهی چُپ ره سکتا تها جن صلاحیت کا وه مالک تها کہیں بهی انہیں اچهی خاصی نوکری مل سکتا تها اپنی زندگی سنوار سکتا تها لیکن عزت نے ایسے کرنے کے بجائے زندان کے راه کو اپنایا کیونکہ اس راستہ میں سچائی تها جس کا عزت متلاشی تها دنیا میں ہر ماں اپنے بچے کو نیکی کی راه میں جانے کا درس دیتا ہے جهوٹ اور مکاری سے نفرت سکهاتا ہے اور بڑا ہونے کے بعد سچائی کی راه میں جانے کا کہتا ہے عزت کی غلطی یہ تهی کہ وه ایک فرمان بردار بچہ تها وه نیکی کی راه میں چل دیا۔ مشکے میں جلتے ہوئے گهروں کو دیکه کر وه آنکهیں بند نہیں کرتا تها اپنے لوگوں کی مشخ شده لاشیں اٹهانے کے بعد وه دوسرے نوجوانوں کی طرح چین سے نہیں سوتا تها ظالموں کو ظالم کہتا تها جهوٹ کو جهوٹ اور سچ کو سچ کہتا تها، پاکستانی فوج کی جاریت پر خاموش رہنا کا درس اُسے نہیں ملا تها وه اپنے دوسرے بلوچ طلباء کے مستقبل کے بارے میں سوچتا تها اس لیے وه آج زندان میں قید ہے اُسے اُسکے جرم کی سزا مل رہی ہے۔
لیکن مجهے پختہ یقین ہے کہ وه زندان میں بهی دشمن کو جیتنے نہیں دے گا وہاں بهی اپنی زمہ داریوں کو بخوبی سرانجام دے گا عزت جیسے نوجوان دوسرے بلوچ نوجوانوں کے لیے مشغلِ راه ہیں کہ قومی آزادی کے سوا بلوچ نوجوان کبهی بهی اچهی طرح پڑھ نہیں سکتے ریاست ہمیں وه پڑهائے گا جن کا تعلق ہماری تاریخ اور ثقافت سے میلوں دور ہے جن کا ہم سے تعلق نہیں ریاست محمد علی جناح کو پڑهائے گا جو بلوچوں کا سب سے بڑا دشمن ہے عزت جیسے پڑهے لکهے نوجوانوں کا اغواه نما گرفتاری ایک سوالیہ نشان ہے جس کے بارے میں بلوچ نوجوانوں کو سوچنا چائیے عزت اس کاروان میں اکیلا پڑها لکها نوجوان نہیں ہے جو آج زندان میں ناجائز اذیتوں سے دوچار ہے بلکہ اُس کے اپنے کئی دوست شبیر، زاهد، اور بہت پہلے ہی پاکستانی اذیت خانوں میں قید ہیں جو برسوں سے اذیت ناک ٹارچر سہ رہے ہیں یہ سب ریاستی سازشوں کا مقصد بلوچ نوجوانوں کو خوفزده کرنا ہے کہ وه عزت کی طرح قوم کے مستقبل کے بارے میں سوچنے کے بجائے منشیات لیں قوم کے بارے میں نہ سوچیں اور برباد ہو جائیں لیکن جب تک عزت جیسے باشعور نوجوان اپنے آپ کو اسی طرح قربان کرتے جائیں گئے تب تک پاکستانی فوج کے سارے سازشیں ناکام ہوتے رہیں گے۔