عزت اکیڈیمی پنجگور کی جانب سےمادری زبان کے دن کی مناسبت سے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں پنجگور سے تعلق رکھنے والے شعراء ادبا ،ٹیچرز، لیکچرارز، سیاسی سماجی و صحافی بردار ی نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
اس موقع پرمقررین نے مادری زبان کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ بلوچستان میں کم وسائل ہونے کے باوجود بھی شاعر ادیب و قلمکاروں کے جہد کی حوصلہ افزائی نا کرنا ان کے ساتھ ناانصافی ہے لیکن اس پرمذید کام کرنے کی تلقین کی گئی۔
پروگرام کے مہمان خاص بلوچی زبان کےپروفیسر اکبر غمشاد ،ملک ابرار، واجہ فضل عاجز تھے اسٹیج سیکریٹری کےفرائض مجاہد بلوچ نے ادا کیئے۔
اکبر غمشاد، ملک ابرار، فضل عاجز،ڈگری کالج کے پرنسیپل محمد حسین آزم، غنی گنوک، برکت مری ،ملا مراد، سعید عزیز اور شےمرید نے تفصیلی انداز میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مادری زبان قوموں کی اصل پہچان ہے ،اس دنیا میں ہر چرند پرند ہر جاندار کی اپنی اپنی زبان ہے اور وہ اپنی زبان کی اظہار سے اپنی شناخت کو برقرار رکھنے میں لگے رہتے ہیں اور انکی زبان سے ہی انکی شناخت ہوتی ہے۔
اسی طرح دنیا کے 7000ہزار زبانوں میں بلوچی زبان بھی اپنی حیثیت رکھتی ہے، زبان کا عالمی دن اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی جانب سے پورے دنیا
میں مادری زبان ڈے منانے کا اعلان کیا گیا، اس غرض سے کہ اقلیتی قوم اپنی زبان اور قومی ذمہ داریوں کو زبان کی فروغ میں خرچ کرکے اپنی معاشرتی ادبی سماجی اقداروں کو زندہ رکھ سکیں، پوری دنیا نےباقائدہ طور پر 1999میں انکی قرارداد اقوام متحدہ میں پیش کی اور اکثریتی رائے سے منظور ہوئی اور پہلا مادری زبان دن کا فرانس میں 21فروری2000 میں باقائدہ آغاز کیا گیا اور آج 190 ممالک سے زیادہ ممالک میں مادری زبان کی اہمیت کے حوالے سے مختلف پروگرام کیے جاتے ہیں۔
بلوچستان کے قوم پرستو ں نے بلوچی زبان کو بطور سرکاری زبان رائج کرنے میں قوم اور زبان کے ساتھ انتہائی زیادتی کی ہے جنہیں تاریخ کبھی نہیں بھولے گی۔
مقررین نے مزید کہا کہ 1952میں دنیا میں سب سے بڑی قربانی اپنی مادری زبان کو سرکاری زبان منوانے کیلئے بنگلہ دیش نے دی ہے، انہوں نے تحریک چلا کر شہادتیں دی اور آج وہ مادری زبان کو بطور ایک قومی دن کے مناتے ہیں۔
بلوچ قوم نے ماضی میں اپنی مادری زبان کو رائج کرنے کیلئے بہت سستیاں کی ہیں اب انکا ازالہ ہمیں بحیثیت بلوچ قوم کو کرنا ہے ورنہ دنیا کے 6000زبانوں کی معدونیت میں بلوچی زبان کا نام مٹ جائےگا پھر ہمیں بحیثیت بلوچ قوم کوئی تسلیم نہیں کرے گا، ہم پر دوسرے زبان مسلط ہونگے۔
ہمیں چائیے کہ ہم اپنے بچوں کو اسکولوں میں ایک مضمون بلوچی میں بھی پڑھانے کی ذمہ داری لیں تب جاکے ہم اپنی مادری زبان کو زندہ رکھنے میں لامیاب ہونگے۔