عدلیہ کو بلوچستان کی طرف متوجہ ہونا چاہیے: بی ایچ آر او

202

کوئٹہ پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بی ایچ آراوکے چیئرپرسن  بی بی گل بلوچ نے کہا کہ آج ایک بار پھر ہم ایک ایسے موضو ع کا ذکر کر نے جا رہے ہیں جسے ہم گذشتہ کئی برسوں سے تواتر کے ساتھ ریاست کی ذمہ دار ستون میڈیا کے سامنے اس امید کے ساتھ کھ رہے ہیں کہ شائد میڈیا اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے بلوچستان میں لاپتہ افراد جیسے سنگین مسئلے سے انحراف نہ کریں۔

اس موقے پر بی بی گل نے کہا کہ ہر ذی شعور شہری اچھی طر ح واقف ہے کہ بلو چستان لا پتہ افر اد کے مسئلہ انتائی سنگیں شکل اختیا ر کر چکی ہے۔بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال اس قدر سنگین ہوچکا ہے کہ انسانی حقوق کے کارکنان اور صحافی بھی اس جبر سے محفوظ نہیں ہے ۔بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مقامی صحافی اور انسانی حقوق کے کارکنان اپنے پیشے سے دستبرادی کو عافیت سمجھ رہے ہیں کیونکہ بلوچستان میں اس موضوع پر لب کشائی زندگی سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہے۔

انھونے مزید کہا کہ انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور بی ایچ آر او کی مرکزی انفارمیشن سیکریٹری عطا نواز سمیت آٹھ نوجوانوں اور کمسن بچوں کو 28 اکتوبر2017 ء کی رات سندھ رینجر نے گلشن حدید ، گلستان جوہر اور ملیر کو ہی گوٹھ سے ان کے گھروں سے ماروائے عدالت گرفتار کرکے لاپتہ کردیا،جو تاحال لاپتہ ہیں ۔لاپتہ افراد کے لواحقین نے شروع دن سے نواز عطاء سمیت تمام کمسن بچوں اور نوجوان طلباء کی بازیابی کیلئے تمام قانونی طریقہ کار استعمال کیے، اور آپ صحافی حضرات کے توسط سے انسانی حقوق کے ادارے و سندھ حکومت سے ان کی بحفاظت بازیابی میں اپنا کردار ادا کرنے کی درخواستیں بھی کیے تھے ۔مگر آج عطا نواز ،کمسن آفتاب ، الفت سمیت نوجوان طلباء کو چار مہینے مکمل ہو رہے ہیں اب تک ان میں سے کسی ایک کی بازیابی ممکن نہ ہو سکا۔ جیسا کہ آپ حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی چارٹر کے مطابق ریاست اپنی کسی بھی شہری کو ماروائے عدالت گرفتار کرکے لاپتہ کرنے کی جواز نہیں رکھتی ہے بلخصوص بچو ں پر کسی قسم کے جبر کو انتائی سنگین جرم تصور کیا جا تا ہے لیکن ریاست بلوچستان میں ان تمام نکات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کررہا ہے جس کے نتائج انتائی سنگین ہونگے۔بلوچستان میں لاپتہ افراد کی فہرست دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے ان تمام لاپتہ افراد کے باہیو ڈیٹاکو جمع کرانے میں عطا نواز نے بہت کوشش کی تاکہ ہم بلوچستان میں ہونے والے انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کو اجاگر کریں مگر ریاستی ادارے انسانی حقوق کیلئے جاری جدوجہد کو روکھنا چاہتے ہیں تاکہ بلوچستان میں انسانی حقوق کے پامالیوں کے خلاف اُٹھنے والے آواز کو دبایا جاسکے۔ ریاست کی تمام ذمہ دار ادارے بلخصوص عدلیہ کو بلوچستان کی طر ف متوجہ ہونا چاہیے اور ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ پاکستان میں رہنے والے تمام انسانوں کو برابری کے بنیاد پر رہنے کا حق فراہم کریں۔ہم سمجھتے ہیں اگر بلوچستان لوگوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ ترک نہ کیا تو دنیا بھر میں انسانی حقوق پر کام کرنے والے ادارے ریاست کیلئے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔

آخر میں ان کا کہنا تھا کہ بی ایچ آر او جو انسانی حقو ق کے لیے ایک سر گر م تنظیم ہے اُس کے انفا رمیشن سیکرٹیر ی نو از عطا ، کمسن بچے آفتا ب یو نس، الفت الطاف ،الیا س بلوچ ،فر ہا د انو ر ،ساجدبلوچ ،عابد بلوچ کو چا ر مہینے مکمل ہو چکے ہیں لیکن انتائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ دنیا کے کسی بھی انسانی حقوق کے تنظیم نے ان کے بازیابی کیلئے کسی قسم کا کردار ادا نہیں کیا ۔ آج ہم اپنی امید آپ صحافی حضرات کے ساتھ باندھے ہوئے ہیں کہ آپ حضرات صحافت کی تقدس کو برقرار رکھتے ہوے ہمیشہ کی طرح آج ہونے والی بی ایچ اراو کی پریس کانفرنس کو اپنے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں کو ریج دینگے اور اپنا انسانی اور صحافتی فرض کو پو رے کر تے ہوے ہماری اس دبی ہو ئی التجا کو سندھ حکومت سمیت مرکزی حکومت ،سپریم کورٹ آف پاکستان تک پہنچائے گے۔

اس موقے پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ بھی موجود تھے-