عالمی عدالت افغانستان میں جنگی جرائم کے شواہد جمع کررہا ہے

322

بین الاقوامی فوجداری عدالت گذشتہ تین مہینوں سے افغانستان میں ممکنہ طور پر جنگی جرائم میں ملوث افراد کے خلاف شواہد اکھٹے کر رہی ہے۔

اس سلسلے میں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ 11 لاکھ 70 ہزار سے زیادہ دستاویزات جمع کرائی گئی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ وہ جنگی جرائم کا ہدف بن چکے ہیں۔

ان دستاویزات میں طالبان اور اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ ساتھ افغان سیکیورٹی فورسز اور حکومت سے منسلک وار لارڈز پر ظلم و زیادتی اور بربریت کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

انسانی حقوق اور تشدد کے خاتمے متعلق ایک گروپ کے ایکزیکٹو ڈائریکٹر عبدالودود پدرام نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں اکھٹی ہونے والی بہت سی دستاویزات کی بنیاد پر ہیگ میں قائم بین الاقوامی فوجداری عدالت یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ آیا وہاں جنگی جرائم کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔

یہ دستاویزات 20 نومبر 2017 سے 31 جنوری 2018 کے عرصے کے دوران اکٹھی کی گئیں۔

خبر رساں ادارے اے پی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک دستاویز میں ممکنہ طور پر کئی متاثرین شامل ہو سکتے ہیں اور اسی طرح ہزاروں متاثرین کی جانب سے دی جائے والی درخواستوں کا ہدف کوئی ایک گروپ ہو سکتا ہے۔ اس طرح بین الاقوامی فوجداری عدالت سے انصاف کے طلب گاروں کی تعداد کئی لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔

پدرام نے بتایا کہ بعض واقعات میں پورے کا پورا گاؤں انصاف کا طالب ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں متاثرہ افراد اور ان کے خاندانوں کو اس ملک کے نظام عدل سے انصاف مہیا نہیں ہو رہا۔

عبدالودود کی تنظیم کابل میں کام کر رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس لوگوں کو ظلم و زیادتی کا نشانہ بنانے والے گروپس کے نام ہیں لیکن سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر وہ ان کا نام نہیں لینا چاہتے کیونکہ وہ بھی ان کا نشانہ بن سکتے ہیں۔

ایک شخص شعیب نے سیکیورٹی خدشات کی بنا پر اپنے نام کا صرف پہلا حصہ استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہوئے بتایا کہ 2014 میں ان کے والد صوبہ غور کے دولت یار ضلع میں ایک بس میں سفر کر رہے تھے۔ ایک مقام پر مسلح افراد کے ایک جتھے نے بس روک کر مسافروں سے اپنا شناختی کارڈ دکھانے کو کہا اور پھر ان میں سے 14 شیعہ مسافروں کو الگ کر کے سب کے سامنے گولی مار دی گئی۔

شعیب نے بتایا کہ اس سلسلے میں ایک طالبان کمانڈر کو پکڑ کر میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا لیکن اس کے بعد سے کمانڈر کے خلاف مقدمہ چلانے یا اسے سزا دینے کی خبر کبھی سامنے نہیں آئی۔

پدرام کہتے ہیں انہیں پچھلے سال موت کی دھمکیاں ملنے کے بعد کچھ عرصے کے لیے افغانستان سے فرار ہونا پڑا تھا۔ اب وہ منظر عام پر آنے سے احتراز کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک میں ہر جگہ وار لارڈز موجود ہیں۔ آپ کو بہت محتاط رہنا پڑتا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ میں جب صبح گھر سے نکلتا ہوں تو اپنے بیٹے اور بیوی کو خدا حافظ کہہ کر نکلتا ہوں کہ کون جانے کس وقت اور کس جگہ کیا ہو جائے اور کون جانے کہ شام کو گھر آنا نصیب ہو کہ نہ ہو۔

ایک افغان باشندہ حسین رازئی، جن کی منگیتر ان 30 افراد میں شامل تھی جو پچھلے سال جولائی میں کارکنوں کو لے جانے والی ایک بس پر خود کش حملے میں ماری گئی تھی، انصاف کے لیے بین الاقوامی فوجداری عدالت میں گئے ہیں۔ وہ کہتے کہ میں اس مقدمے کی اس لیے پیروی کر رہا ہوں کہ اگر کبھی امن کا معاہدہ ہوتا ہے تو طالبان لیڈروں کو ان افراد کو سامنے لانا ہوگا جو قتل و غارت گری کے ان واقعات کے پیچھے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ میرا نہیں خیال کہ بین الاقوامی برادری کبھی بھی افغانستان کے وار لارڈز یا طالبان کو انصاف کے کٹہرے میں لائے گی۔ لیکن اگر بین الاقوامی فوجداری عدالت قانون کے مطابق فیصلہ دیتی ہے تو حکومت پر یہ دباؤ ڈالا جا سکتا ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد کرے۔