صغیر احمد کی گمشدگی سوالیہ نشان ہے ـــ ساحل بلوچ

440

بلوچستان کی انسانی زندگی کی بنیادی سہولتیں صحت ، روزگاراور دیگر ضرورتوں کے ساتھ تعلیم جیسے شئے سے محروم ہونا اور تعلیمی نظام کی انتائی بدترین حالات کے ذمہ دار کون ہے یہ موضوع جداگانہ بحث کی متقاضی ہے ۔میرا موضوع آج بلوچستان سے باہرکے تعلیمی اداروں میں طلباء کے زندگیوں کو لاحق خطرات کے بارے میں ہے۔

بلوچستان میں تعلیمی ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں اگر ہے بھی تو وہ جدید دنیا کے ضرورتوں کو پورا نہیں کرسکتے ہیں اس لیئے بلوچ نوجوان بہترماحول میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے کراچی، پنجاب اور سندھ کے شہروں کا انتخاب کرتے ہیں چونکہ بلوچستان کی معاشی حالت یہ ہے کہ یہاں کے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزاررہے ہیں ۔

بلوچستان سے باہر تعلیم حاصل کرنے والے 80فیصد طلباء کے والدین کاشت کاری یا دئیاڑی کے ذریعے گزر بسر کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود والدین محنت مزدوری کرکے اپنے لخت جگروں کو بڑے شہروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجتے ہیں تاکہ ہمارے نوجوان ہمارے بہتر خوابوں کی تعبیر کر سکیں ۔ لیکن ان مصوم والدین کے خوابوں پر اس قیامت ٹوٹتی ہے جب اپنے بچوں کے اچھی نوکری حاصل کرنے کی خبر کے بجائے اس کی گمشدہ ہونے کی خبر انہیں موصول ہوتی ہے ۔

حالیہ کچھ مہینوں میں بلو چستان سے باہر کے تعلیمی اداروں میں بلوچستان کے طلباء کو شدید سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ان حالات میں ایک سوال ذہین میں پیدا ہوتا ہے کہ آیا نظام تعلیم کو پسماندہ کرنے کے بعد اپنے شہروں سے بھی بلوچ نوجوان کیلئے تعلیم کے دروازے بند کیے جارہے ہیں؟خدارا ایسا نہیں ہو لیکن آئے روز بلو چ طلباء کو پیش آنے والے مسائل ایک دوسرے مماثلت رکھتے ہیں۔ گزشتہ مہینے اسلام آباد میں بلوچ اور سندھی طالب علموں کے درمیان یک چھوٹے سے معاملے کو بہانہ بنا کر 4 بلوچ طلباء کو رسٹیکٹ کردیاگیا لیکن علم کے پیاسے نوجوانوں نے بھوک ہڑتال پر بیٹھ کر اپنے معطل شدہ دوستوں کو بحال کراکے ثابت کردیا بلوچ نوجوان کو حیلے بہانے تعلیم حاصل کرنے سے روک نہیں سکتے ہیں لیکن یہ معاملہ ختم نہیں بلکہ شروع ہوا اسی وقت کراچی سے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین القوامی تعلقات کے طالب علم نواز عطاء بلوچ کو دیگر 8طلباء جن میں اسکولیول کے کمسن طلباء کی اکثریت تھی وہ راتوں رات غائب ہوگئے اور آج تک اُن کی سراغ نہیں مل سکا،

اس کے بعد کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین القوامی تعلقات کے طالب علم حسّام بلوچ اپنے تین دیگر دوستوں کے ساتھ کراچی سے غائب ہوئے ان کا بھی آج تک کوئی سراغ نہیں مل سکا اس کے بعد میرے عزیز دوست صضیر احمد شعبہ سیاسیات کے طالب علم کو کراچی یونیورسٹی کے کینٹین سے درجنوں طالب علموں کے سامنے غائب کیا گیا اور آج تک حمیدہ صغیر کیلئے در بہ در کی ٹوکریں کارہی لیکن اس کے باوجود صغیر کی اطلاع کوئی نہیں دے رہا ۔ اب سمجھ میں نہیں ان نوجوان طلباء کو زمین کہارہی یا آسمان نگل رہا لیکن یہ مجھ جیسے طالب علم کیلئے انتائی تشویشناک صورتحال ہے۔

اب سوال شدت سے سر اٹھا رہا ہے کہ آیا بلوچ طالب علم بڑے شہروں میں اپنی تمام تر توجہ تعلیم پر رکھے یا لاپتہ افراد کے فہرست میں شامل نہ ہونے پر توجہ رکھیں۔ اب صغیر جیسا نوجوان جو بلوچستان کے پسماندہ علاقہ آواران تیرتیج سے تعلق رکھتا ہے آواران کا شمار بلوچستان کے ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں تعلیمی ادارے نہ ہونے کے برابر ہے پورے ضلع میں 4ْٰ اسکول اور ایک ہی انٹرکالج ہے اس کالج کے بھی صرف عمارت موجود ہے لیکن کالج کے دروازے بند ہے طلباء کو میٹرک کے بعد مزیدتعلیم حاصل کرنے کے لیے دوسرے شہروں کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔

ان طالب علموں میں سے ایک طلباء صغیر احمد بھی ہے جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے نیت سے والدین نے کراچی بھیج دیا لیکن صغیر کے والدین نے کھبی یہ نہیں سوچا تھا کہ ہمارا بیٹھا تعلیم حاصل کرنے کے بجائے تعلیمی ادارے کے اندر سے غائب ہوجائے گا۔ لیکن انتائی افسوس کا مقام یہ ہے کہ یونیورسٹی لیول کا طالب علم دن دھاڑے کراچی یونیورسٹی جیسے بڑے تعلیمی ادارے میں غائب ہوجائے اور اہل قلم مجرمانہ خاموشی اختیار کریں۔

صغیر کی بہن حمیدہ اپنے بھائی کے بازیابی کیلئے کبھی کرچی پریس کلب ، کبھی انسانی حقوق کے آفس تو کبھی کسی اور سرکاری آفس کے سامنے اپنے خشک آنسوں کے ساتھ چکر لگارہے لیکن اس معصوم بہن درد بری آہ کسی لکھاری یا دانشور کی کانوں کو بھی چھو رہے ہیں۔مجھ جیسے طالب علم کی اہل قلم سے دردمندانہ گزارش ہے کہ وہ حمیدہ کی آواز بن کراس مسئلے کو اُجاگر کریں اگر اہل قلم نے اپنی مجرمانہ خاموشیوں کو برقرار رکھا تو دیگر بلوچ طلباء صغیراحمد کی طرح اداروں کے اندر سے سرے عام غائب کیئے جائے گے ا ور بلوچ طالب علموں کے لیے بلوچستان سے باہر بھی تعلیم کے دروازے بند ہوجائے گے۔