شہید ضیاالرحمن
تحریر: دوستین لاسی
ضیاالرحمن عرف دلجان مجھے معاف کرنا میں نے تجھے پہچاننے میں دیر کر دی اور اب حب چوکی کی گلیوں الہ آباد کے گراونڈ کے آس پاس تجھ سے ملاقات نہیں ہوگی، مگر لسبیلہ خوش قسمت ہے حب چوکی خوش قسمت ہے کہ آپ یہان جوان ہوئے، حب کی گلیاں تجھے یاد کررہی ہیں۔
میری طرح اور کئی لوگ تجھے یاد کر رہے ہیں۔
20 فروری کی صبح موبائل ڈیٹا ٓن کیا فیس بک دیکھ رہا تھا آپ کی تصویر سامنے گذرا مگر یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ اپنا حب چوکی کا ضیاالرحمن ہے میں اچانک چونک گیا کہ بلوچستان کا مشہور جہدکار ٹک تیر ضیا الرحمن زہری تھا
لیکن ہماری بدقسمتی دیکھو کہ ضیاالرحمن یہاں سپرد گلزمین نہ ہوسکا
شاید وہ ہم سے خفا تھا کہ لسبیلہ کے لوگوں کو وطن سے
محبت نہیں کرتے
لیکن ضیا الرحمن ایسا ہرگز نہیں سوچتا ہے
وہ عظیم سوچ کا مالک تھا، وہ علاقائی تعصب سے پاک وطن کا دیوانہ تھا
میں نے شہید جاوید نصیر، شہید صمد اور ضیاالرحمن سے بہت کچھ سیکھا ہے
لیکن شہید ضیاالرحمان سے وہ باتیں سیکھیں کہ زندگی بھر مجھے حوصلہ دینگے۔
اگر شہید ضیاالرحمان سے ملاقات نہیں ہوتا تو میں آج کسی وطن دشمن پارٹی کا ممبر ہوتا جام بھوتانی رجب یا لالہ مجید کا شیدائی ہوتا لیکن ضیا الرحمن اور بی ایس او کے سرکلز نے مجھے شعور دیا،
ضیا الرحمان سے آخری ملاقات غالبا 4 سال پہلا ہوا وہ جمعہ ہوٹل میں اب سرعام نہیں بیٹھتا تھا اور مجھے معلوم ہوا کہ ضیاالرحمان اسٹیج اور جلسوں کی سیاست سے بہت دور نکل چکا ہے، چار سال بعد آج اسکی تصویر نے مجھے بہت بدل دیا
ضیا الرحمن ضرور لسبیلہ سوچے گی
کیونکہ لسبیلہ بلوچستان سے آئے ہوئے مختلف قبائلوں کا خوبصورت گلدستہ ہے
لسبیلہ کے مزدور، طالب علم، سیاسی کارکنوں کو میں یہ ضرور کہونگا کہ یہاں باہر سے آئے ہوئے پنجابی اور دیگر سرمایہ دار پچھلے دس بار سالوں سے ہمین اس لیے 12 ہزار کی نوکری دیتے آرہے ہیں کہ ضیاالرحمان جیسے نوجوانوں کی بندوق نے ہمیں عزت بخشی ہے وگرنہ جام بھوتانی اور یہ پارلیمانی پارٹیوں نے ہمارا سودا کب کا کیا ہوا ہے،ورنہ ہمیں انسان تو کجا جانور سے بدتر جاہل سمجھتے ہیں ۔
دل کہتا ہے بہت لکھوں ضیاالرحمن لیکن اب لکھنے کے ساتھ ساتھ آپکا عظیم پیغام عام کرونگا،
مجھے یاد ہے 2011 کو ڈگری کالج حب میں بی ایس او کے سرکل میں ایک دوست نے کہا کہ یہاں کے مقامی لوگ کبھی بھی جدوجہد میں شامل نہیں ہونگے
میں نے کہا آپ غلط ہو، اس نے کہاکہ میں دو سالوں سے یہی ایک لاسی ہوں جو سرکلوں میں آتا ہوں اور کیوں نہیں آتے؟ لہذا میں شاید اپنے کسی مفاد کے لئے سرکل میں بیٹھتا ہوں۔ میں اس دوست سے ناراض ہوکر سرکل سے اٹھ کر چلا گیا
پھر حب سے کئ دوست شہید ہوتے گئے اور ان میں عابد علی موٹک بھی شامل تھا، جو یہاں کا مقامی لاسی قبائل سے تعلق رکھتا تھا
پھر 2013 میں اس دوست رابطہ ہوا اس نے کہا دوستین معاف کرنا یہ جدوجہد ہم سب کا ہے، اس قوم کا مکرانی مینگل، زہری مری ،بگٹی ،رونجھہ موندرہ سب کا ہے
اپنے باتوں کو یہاں ختم کرنے سے پہلے اتنا کہونگا اب حالات بدل چکے ہیں اب وہ سرکلز اور دیوان اوپن نہیں ہو سکتے آج میرے پاس کوئی بندوق بردار بھی نہیں لیکن کل میں ایک موندرہ تھا آج میرے ہمفکر کالج کے کئ دوست ہیں
اور ہم سب دوست مل کر شہید ضیا الرحمان کا پیغام لسبیلہ میں عام کرینگے ۔