اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں کی ایما پر جنوبی شام کے علاقوں میں امدادی سامان تقسیم کرنے والے بعض مرد غذائی امداد کے بدلے عورتوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔
ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تین سال قبل تیار ہونے والی رپورٹ میں اس مسئلے کے بارے میں خبردار کیے جانے کے باوجود ابھی تک شام کے جنوبی علاقوں میں امدادی کارکنوں کے ہاتھوں خواتین کا استحصال جاری ہے۔
اقوام متحدہ اور خیراتی اداروں کا کہنا ہے کہ وہ جنسی استحصال کے بارے میں ’زیرو برداشت‘ کی پالیسی رکھتے ہیں لیکن وہ پارٹنر تنظیموں کے بارے میں معلومات نہیں رکھتے۔
امداری کارکنوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ امدادی اداروں میں جنسی استحصال اتنا پھیلا ہوا ہے کہ شامی عورتیں ان مراکز میں جانے سے انکار کر رہی ہیں کیونکہ بعض لوگوں میں یہ تاثر پایا جایا ہے کہ وہاں آنے والی خواتین خوراک کے بدلے اپنا جسم دینے کے لیے تیار ہیں۔
ایک کارکن نے دعویٰ کیا کہ بعض خیراتی اداروں نے جنسی استحصال کے بارے میں چشم پوشی کی پالیسی اپنا رکھی ہے کیونکہ شام کے خطرناک علاقوں جہاں انٹرنیشنل اداروں کے اہلکاروں کا جانا ممکن نہیں ہے، وہاں مقامی پارٹنرز کے ذریعے امداد پہنچانا واحد راستہ ہے۔
اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) نے گذشتہ سال علاقے میں صنفی تشدد کے حوالے سے ایک جائزہ رپورٹ مرتب کی تھی جس میں وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ شام کے کئی علاقوں میں خیراتی امداد کے بدلے جنسی استحصال کیا جا رہا ہے۔
’وائسز فرام سیریا 2018‘ نامی رپورٹ میں کہا گیا کہ ایسی عورتیں جن کےخاوند مر چکے ہیں یا جنھیں طلاق ہو چکی ہے وہ آسان ٹارگٹ تصور کی جاتی ہیں۔
شام میں امدادی کارکنوں کے ہاتھوں عورتوں کےاستحصال کی پہلی اطلاع تین سال پہلے دی گئی تھی۔ ایک خیراتی ادارے کی مشیر ڈینیل سپنسر کو 2015 میں اردن میں مہاجرین کے کیمپ میں عورتوں کے ایک گروپ نے اس استحصال کے بارے میں مطلع کیا تھا۔
کئی عورتوں نے ڈینیل سپنسر کو بتایا کہ وہ خود اس استحصال کا شکار ہو چکی ہیں۔
ان عورتوں نےڈینیل سپنسر کو بتایا کہ شام کے علاقے داریا اور کونیٹرا میں سیکس کے بدلے امداد کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔
ان عورتوں کے گروہ نے ڈینیل سپنسر کو بتایا کہ ‘وہ امداد اس وقت تک روک لیتے ہیں جب تک ان کی جنسی خواہشات پوری نہ کریں۔ وہ عورتوں اور لڑکیوں کے فون نمبر مانگتے ہیں اور پھر گھر تک گاڑی میں لفٹ بھی دیتے ہیں۔‘
ڈینیل سپنسر کو بتایا گیا کہ ‘ایک عورت کمرے میں رو رہی تھی۔ وہ اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے پر بہت پریشان تھی۔ عورتیں اور لڑکیاں جنھیں تحفظ کی ضرورت ہے، انھیں خوراک اور صابن جیسی بنیادی چیزوں کے حصول کے لیے سکیس کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔’
کچھ ماہ بعد انٹرنینشل ریسکیو کمیٹی (آئی آر اے) نے شام کے علاقوں دارا اور کونٹرا میں ایک سروے کیا جس میں 190 عورتوں نے شرکت کی۔ ان 190 عورتوں میں سے چالیس فیصد نے آئی آر اے کو بتایا کہ جب انھوں نے امداد حاصل کرنے کی کوشش کی تو انھیں جنسی استحصال کا سامنا کرنا پڑا۔
آئی آر اے کے ترجمان نے کہا کہ ان کےتجزیے کے مطابق شام میں جنسی استحصال وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ہے۔
بی بی سی نے ڈینیل سپنسر اور آئی آر اے کی رپورٹس دیکھیں ہیں جنھیں 2015 میں یو این پی ایف اے کے اردن میں ہونے والے اجلاس پیش کیا گیا۔
اس رپورٹ کے پیش نظر یعض امدادی اداروں نے اپنے ضابطہ اخلاق کو مضبوط کیا ہے۔
ایک ذرائع نے جس نے 2015 میں اردن میں یو این ایف پی اے کے اجلاس میں شرکت کی تھی، بی بی سی کو بتایا کہ امداد کی ترسیل کے دوران جنسی استحصال کے قابل اعتبار شواہد موجود تھے لیکن اقوام متحدہ نے اس کو روکنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
یو این ایف پی اے کے ترجمان نے کہا کہ انھوں نے جنوبی شام میں عورتوں کے ممکنہ جنسی استحصال کے بارے میں کیئر نامی تنظیم سے سنا تھا لیکن انھیں ان دو غیر سرکاری تنظیموں کے بارے میں کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی جن کے ساتھ وہ کام کرتے ہیں۔ یو این ایف پی اے کے ترجمان نے واضح کیا کہ وہ مقام کونسلوں کے ساتھ کام نہیں کرتے جن کے ذریعے امداد کی ترسیل کی جاتی ہے۔
یونیسیف کے ترجمان نے تصدیق کی کہ انھوں نے 2015 میں اس اجلاس میں شرکت کی تھی جہاں امداد کے عوض عورتوں کے جنسی استحصال سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی۔ یونیسیف کے ترجمان نے واضح کیا کہ اس نے اپنے پارٹنر اداروں کا جائزہ لیا اور ان میں عورتوں کے جنسی استحصال کی کوئی شکایت نہیں تھی۔ البتہ یونیسیف کے ترجمان نے تسلیم کیا شام میں جنسی استحصال کا خطرہ موجود ہے۔