خیبر پختونخوا کے شمالی پہاڑی ضلع سوات کے حکام نے ان افراد کے خلاف ریاست سے غداری کے الزام میں مقدمات درج کر لیے ہیں جنہوں نے ضلعے میں فوجی چوکیوں کے خلاف اتوار کو مینگورہ شہر اور خوازہ خیلہ میں احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیا تھا۔
اتوار کو ہونے والے ان مظاہروں میں سیکڑوں مقامی افراد شریک تھے جو مینگورہ شہر کے وسطی علاقے نشاط چوک اور خوازہ خیلہ میں فوج کی قائم کردہ چوکیوں کے خاتمے اور علاقے کا انتظام و انصرام سول انتظامیہ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
خوازہ خیلہ کے پولیس تھانے کے ایک اہلکار رحمت علی نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ فی الحال مظاہرے کی قیادت کرنے والے چھ افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں جن میں ریاست سے غداری اور ریاستی اداروں بالخصوص سکیورٹی فورسز کے فرائض میں رکاوٹ ڈالنے کی دفعات شامل ہیں۔
خوازہ خیلہ کے علاوہ مینگورہ پولیس اسٹیشن میں بھی انہی دفعات کے تحت سات افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
اطلاعات ہیں کہ دونوں تھانوں کی پولیس نے مظاہروں میں شرکت کرنے اور ان کی قیادت کرنے والے بعض افراد کو گرفتار بھی کیا ہے لیکن تاحال گرفتار ہونے والے افراد کے بارے میں تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔
سوات میں 2006ء سے 2009ء تک کالعدم عسکریت پسند تنظیم ‘تحریکِ طالبان پاکستان’ کے جنگجوؤں نے ریاستی عمل داری کو مفلوج کیے رکھا تھا جس کے بعد اپریل 2009ء میں صوبائی حکومت نے سوات میں قیامِ امن کے لیے وفاقی حکومت سے فوجی کارروائی کی سفارش کی تھی۔
ضلعے میں کیے جانے والے فوجی آپریشن ‘راہِ راست’ کے نتیجے میں وادیٔ سوات اور ملحقہ اضلاع سے عسکریت پسندوں کو بھگا دیا گیا تھا جبکہ جنگجووں کا سربراہ ملا فضل اللہ افغانستان فرار ہوگیا تھا۔
قیامِ امن کے کئی سال بعد بھی ضلعے میں فوج کی بھاری نفری بدستور تعینات ہے جس نے مختلف علاقوں اور شاہراہوں پر چوکیاں قائم کر رکھی ہیں۔
مقامی افراد ان چوکیوں پر تعینات اہلکاروں کے ناروا رویے اور عام شہریوں کو بے جا تنگ کرنے کی شکایت کرتے رہے ہیں۔