سانحہ توتک کو 7 سال مکمل،درجنوں لوگ تاحال لاپتہ ہیں :بی ایس او آزاد

376

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں سنگت نعیم بلوچ و سنگت یحیی بلوچ کے ساتویں برسی کے موقع پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ 18فروری 2011ء کو خضدار کے علاقے توتک میں قابض ریاست کے عسکری اداروں نے بڑے پیمانے پر فوجی کاروائی کرکے 29لوگ گرفتار کرکے لاپتہ کردیے تھے، اور اس فوجی کاروائی میں بی ایس او آزاد کے دو سرگرم کارکن سنگت نعیم بلوچ و سنگت یحیی بلوچ کو سرعام فائرنگ کرکے شہید کردیاگیا۔

جبکہ اس کاروائی میں دو گھر جلائے گئے اور عام لوگوں کو شدید تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا جبکہ لاپتہ کیئے گئے 29لوگوں میں بی ایس او آزاد کے ممبر مقصود قلندارانی بھی شامل تھے جس کی مسخ شدہ لاش 26جولائی 2011ء کو برآمد ہوئی ان میں سے 18لوگ زہنی و جسمانی تشدد کے بعد رہا کردیے گئے تھے جبکہ دس لوگ تاحال لاپتہ ہیں جن میں اکثریت بی ایس او آزاد کے کارکنان ہیں۔

خضدار کے علاقے توتک میں ریاستی عسکری اداروں نے بے رحمانہ فوجی کاروائی کے بعد علاقے کو مذہبی انتہاء پسندا و رریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے سرغنہ شفیق مینگل کو سپرد کردیا گیا تھا ۔ریاستی ڈیتھ اسکواڈ نے عام عوام کیلئے جینا محال کردیا تھا جس کے سبب عام عوام انتہائی پرتشدد ماحول کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔

ریاستی ڈیتھ اسکواڈ نے توتک کو مکمل ایک عسکری بیس میں تبدیل کردیا تھا جہاں ضلع خضدار کے قریب و جوار سے لاپتہ کیے گئے لوگوں کو قتل کرکے ان کو اجتماعی قبروں میں دفنایا جاتاتھا جس کی واضح مثال جنوری 2014 ء کو توتک میں اجتماعی قبروں کی برآمدگیاں ہیں۔

ان اجتماعی قبروں سے برآمد کیے گئے لاشوں کی تعداد سو سے زائد تھی جن میں تین کی شناخت ہوگئی تھی جو آواران کے رہائشی اور سیاسی کارکنان تھے لیکن ریاست نے ان واقعات کے حقائق مکمل مسخ کیے،کسی بھی انسانی حقوق و میڈیا کے نمائندوں کو علاقے تک رسائی نہیں دی گئی تھی جبکہ بین القوامی انسانی حقوق کے اداروں اور میڈیا نے بھی بنیادی ذمہ داریوں سے خود کو بری الذمہ قرار دیکر اس قسم کے انسانیت کو جھنجوڑنے والے واقع پر ریاستی بیانیہ پر اعتماد کرکے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا اور نہ ہی کسی قسم کا تفشیش کیا گیا جو خود عالمی انسانی حقوق کے قوانین کو پامال کرنے کا مترادف ہیں۔

ترجمان نے مزید کہا کہ سنگت نعیم، سنگت یحیٰی ،سنگت مقصود قلندارانی طالب علم اور سیاسی کارکنان تھے، ریاستی عسکری اداروں نے تمام عالمی قوانین کو روند کر سیاسی کارکنان کو ماروائے عدالت قتل کیا۔

سیاسی کارکنان و طالب علموں کے اس طرح ریاستی اداروں کے ہاتھوں ماروائے عدالت قتل ریاستی سفاکیت کو عیاں کرتی ہے ۔ریاست نے ایک طویل مدت سے بی ایس او آزاد کی سیاسی موقف کودبانے کیلئے ایک جمہوری طلباء تنظیم کے خلاف پرتشدد کاروائیوں کا سلسلہ شروع کیا گیا جس میں بی ایس اوآزاد کے درجنوں کارکنان کو ماروائے عدالت قتل کیا گیا جو بی ایس او آزاد کے سیاسی موقف پر قدغن لگانے کی کوشش ہے لیکن ریاست تمام تر کوششوں کے باوجود بی ایس او آزادکے سیاسی و جمہوری جدوجہد کو ختم کرنے میں ناکام ہے اور ناکام رہے گا۔