انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق دنیا بھر میں نفرت بھری سیاست میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ اس تنظیم کی طرف سے مہاجرین کے حوالے سے یورپی یونین اور امریکی صدر کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
ایمنسٹی نے اپنی ایک سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ عالمی سطح پر پریشان کن ریاستی رویوں کی وجہ سے پھیلنے والی یہی نفرت انگیز سیاست اقلیتوں کے خلاف مسلسل بڑھتے ہوئے امتیازی سلوک کی وجہ بنی ہے۔ ایمنسٹی کے سربراہ سلیل شیٹی نے برطانوی دارالحکومت لندن میں اپنی تنظیم کی سالانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ سال دو ہزار سترہ کے دوران اہم بین الاقوامی سیاسی شخصیات نے اپنے فیصلوں کے ذریعے سماجی نفرت اور خوف کے ماحول کو تقویت دی۔
اس رپورٹ میں دنیا کے قریب ایک سو ساٹھ ممالک میں انسانی حقوق کی مجموعی صورت حال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ گزشتہ برس ستائیس ممالک میں انسانی حقوق کے لیے فعال تین سو بارہ کارکنوں کو قتل بھی کر دیا گیا۔
اس رپورٹ میں دنیا کے ترقی یافتہ اور امیر ممالک کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یورپ کے زیادہ تر لیڈر مہاجرین کے مسئلے کو حل کرنا نہیں چاہتے اور وہ قانونی اور محفوظ ہجرت کے حوالے سے عملی طور پر کچھ بھی کرنے سے گریزاں ہیں، ’’وہ مہاجرین کو اپنے ساحلوں سے دور رکھنے کے لیے ہر ممکن طریقہ اپنا رہے ہیں۔‘‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نام لیتے ہوئے ان پر تنقید کی ہے۔ کہا گیا ہے کہ امریکی صدر کی طرف سے مخصوص مسلم ممالک کے خلاف سفری پابندیاں عائد کرنے سے نفرت کی سیاست اپنی خطرناک ترین سطح تک پہنچ گئی ہے۔
اسی طرح امریکا کی طرف سے کیوبا میں واقع گوانتاناموبے کی بدنام زمانہ جیل بند نہ کرنے کے فیصلے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس جیل میں تفتیش کے غیرانسانی طریقہ ء کار پر اعتراض کرتے ہوئے کہا گیا ہے، ’’آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس سے دنیا بھر کی ان حکومتوں کو کیا پیغام جاتا ہے، جو تشدد کا استعمال کرتی ہیں۔‘‘
رپورٹ کے مطابق امریکی رویے دنیا کے تمام ممالک پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ میانمار حکومت کے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جبر و ستم کی وجہ سے اس ملک میں بھی اقلیتیں خوف کا شکار ہے۔
اسی طرح چند ساستدانوں کی طرف سے آسٹریا، فرانس، جرمنی اور ہالینڈ میں ہونے والے حالیہ انتخابات کے دوران مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات کے حوالے سے بھی بات کی گئی ہے۔ ان ملکوں میں اقلیتوں کے خلاف ’خوف اور الزام‘ کی سیاست کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ رپورٹ کے اختتام پر کہا گیا ہے، ’’ہمیں نفرت انگیز بیانیے کو مسترد کرتے ہوئے یکجہتی کی ثقافت کو فروغ دینا چاہیے۔‘‘