دلجان: ایک حقیقی گوریلہ کمانڈر – سفر خان بلوچ

669

دلجان: ایک حقیقی گوریلہ کمانڈر

تحریر: سفر خان بلوچ

(دی بلوچستان پوسٹ)

جنگ بھی ایک ہنر ہے اور ہر کوئی اس کا ماہر نہیں ہو سکتا۔ جنگوں میں پھر گوریلہ جنگ بلکل الگ اور منفرد ہے۔ اس جنگ میں قوت سے زیادہ قابلیت اور عقل معنی رکھتا ہے۔ کب، کہاں، کس طرح اور کیسے حملہ کرنا ہے ان چیزوں کو سمجھنا ایک گوریلہ رہنما کے لئے اولین شرط ہے۔ بلوچستان میں بھی پاکستانی فوج کے ساتھ ہماری ایک گوریلہ جنگ چل رہی ہے جو کئی سالوں سے جاری ہے۔ اس جنگ میں ہمیں بے شمار گوریلہ کمانڈران ملے جو ریاست کے خلاف بر سرے پیکار ہیں۔ ان ہی لاتعدد کمانڈروں سے کچھ کہ ساتھ خوش قسمتی سے میرا واسطہ رہا ہے۔ شھید ضیاء عرف دلجان اُن ہی میں سے ایک تھا۔

شہید دلجان کا سفر جہدء آجوئی میں کافی طویل ہے۔ اُس نے سیاسی جدوجہد کا آغاز بی ایس او کے پلیٹ فارم سے شروع کی۔ اُس کے بعد مسلح جد و جہد کا آغاز بی ایل اے کے پلیٹ فارم سے کی۔ وہ ایک سپاہی سے کمانڈر بننے تک کافی مشکلات سے گذر کر پہنچا تھا۔ جس کے پیچھے کئی سالوں کا جنگی تجربہ اور کئی سالوں کا جتن شامل تھا۔ سنگت دلجان کو معلوم تھا کہ دشمن کو کیسے شکست دی جا سکتی ہے۔ تب ہی تو وہ ایک ایسے وقت میں جھالا وان کا کمان سنبھالتا ہے، جب دشمن کا دہشت گھر گھر میں چھایا ہوا تھا۔

سنگت دلجان ہمیشہ کہتا تھا کہ یہ جنگ شہروں کا ہے، پہاڑ صرف ہمارے “بیس” ہیں۔ وہ کہتا تھا کہ شہر میں اگر ایک کام ہو وہ پہاڑوں میں کی گئی کئی کاموں سے زیادہ اثر رکھتا ہے۔ اسی لئے دلجان اور اُس کے دیگر ہمراہ شہری کاروئیوں پر توجہ دیتے تھے۔ دلجان جنگ ایک منفرد حکمت عملی کے ساتھ لڑتا تھا، جسکی وجہ سے اُس نے کافی کامیابیاں حاصل کیں۔ وہ عوامی رابطے کو تحریک کے بقا سےتشبیہ دیتا تھا۔

پچھلے ایک سال سے دلجان اپنے محنت اور کامیاب کاروائیوں کی بدولت بی ایل اے کا ایک اہم کمانڈر ثابت ہوا۔ وہ زہری جیسے علاقہ میں گشت کرتا رہتا تھا اور نوجوانوں کو اپنے ہمراہ کر رہا تھا۔ دلجان اور بی ایل ایف کے ساتھیوں نے مل کر ایک پار پھر سے جھالاوان کو نیند سے بیدار کر دیا۔ یہ دوست اب کی بار مختلف انداز سے چیزوں کو آگے لے جا رہے تھے جو کہ قابل تعریف ہے۔ دلجان اور دوسرے دوستوں کی بدولت آج کئی دلجان اور بارگ اُن کی ذمہ داریوں کو سنبھالنے کے لئے تیار ہیں۔

شھید دلجان روایتی جنگی طریقہ کاروں سے بلکل الگ کام کرتا تھا۔ انہوں نے بی ایل ایف کے دوستوں سے مل کر غیر اعلانیہ ریجنل کونسل بنایا تھا، جہاں دونوں تنظیموں کے علاقائی ذمہ دار صلاح مشورہ سے حکمت عملی مرتب کرتے تھے۔ دلجان، بارگ جان سمیت دوسرے دوستوں نے اپنے ریجن میں تمام معاملات کو ایک ادارے کی شکل دے دی۔ جس کی وجہ سے دشمن کو اُن کو سمجھنے اور روکنے میں کافی ناکامی ہوئی۔ یہی وجہ تھی کہ ریاست سمیت کچھ قبائلی سرداروں کے لئے وہ دردِ سر بن گئے تھے۔ آج انہی دوستوں کا محنت کا نتیجہ ہیکہ اب سرادروں سے لوگوں کا خوف ختم ہوچکا ہے، اُن کی امیدیں بلوچ قومی فوجیں یعنی بی ایل اے اور بی ایل ایف پر ہیں۔

ایک بڑے عرصہ کے بعد زہری میں لمہ وطن کے جانبازوں نے قبضہ گیر سے دوبدو لڑائی کی تھی۔ شہدائے تراسانی نے دشمن کو کافی نقصان پہنچایا، جس کی شاہد وہ توقع نہیں کر رہے تھے۔ تراسانی کے پہاڑوں میں ٹکرائے دلجان اور بارگ کے گولیوں کی گونج نے زہری کو نیند سے ضرور جگایا ہو گا۔ دلجان اور بارگ کا کہتے ہیں کہ دشمن سے لڑتے لڑتے وہ کافی حد تک اُن کے گھیرے سے نکل چکے تھے، کاش کے اُن کے بندوقوں میں کچھ اور گولیاں دشمن کے لئے ہوتے، شاہد ہمارے دو کمانڈر آج ہمارے ساتھ ہوتے اور ایک نئے مشن پر جانے کے لئے بحث کر رہے ہوتے۔

شھید دلجان نے آخری سانس تک ایک گوریلہ رہنما بن کر دشمن پر برستا رہا اور آخر کار اپنے ہمراہ شھید بارگ کے ساتھ مل کر خود کو ہمیشہ کے لئے امر کر گیا۔ وہ مرنے کو قومی رازوں سے زیادہ اہمیت دے گئے۔ یہ کیسے لوگ ہوتے ہیں، جو موت کو خود ہی چُنتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ کہ “ مرنے کا اختیار کوئی مجھ سے نہیں چِھین سکتا۔وہ میرا خود کا فیصلہ ہو گا” بیشک بہت کم لوگ یہ اختیار خود چنتے ہیں اور وہ لوگ عظیم ہوتے ہیں۔

آج شھید دلجان اور بارگ جان ہمارے ساتھ جسمانی طور پر نہیں۔ لیکن اُن کا مقصد اُن کا محنت جسکے بدولت ہزاروں جہد کار آج دشمن سے لڑنے کے لئے تیار ہیں، اُن کی شکل میں ہمارے بیچ موجود ہیں۔ ہم شہدائے تراسانی سے وعدہ کرتے ہیں کہ جس مقصد کے لئے آپ نکلے تھے، وہ مقصد انشااللہ ہم ضرور پورا کرینگے۔

دلجان سنگت آپ سے وعدہ ہے، ہم جھالاوان کو اب پھر سے سونے نہیں دینگے۔ ہم دشمن پر ہزار دلجان اور بارگ جان بن کر برسینگے۔ ہمیں یقیناً آپ کے جانے سے صدمہ ہوا، پر ہم ہارے نہیں ہیں۔ آپ لوگوں کی بہادری اور لمہ وطن پر خوشی خوشی جان قربان کرنے کا اعلیٰ اور افضل عمل نے ہمیں مزید حوصلہ بخشا ہے، اب شکست دشمن کی مقدر ہے۔