دالبندین: رقم کے عوض اساتذہ خود ہی طلبا کو نقل فراہم کررہے ہیں

172

تعلیمی اداروں میں نقل کی ناسور کو پھیلانے میں اساتذہ خود پیش پیش ۔

بورڑ کی جانب سے امتحانات کے لیے تعینات کیے گئے اعلی آفیسرز دوران پیپر بھنگ پی کر سو جاتے ہیں یا نقل جیسے ناسور کی حوصلہ افزائی اور سہولت کاری کے عوض ملنے والی رقم، دعوت، طائف وغیرہ میں برابر کے حصہ دار ہوکر نقل کی کھلی چھوٹ دیتے ہیں

دی بلوچستان پوسٹ ویب ڈیسک رپورٹ کے مطابق دالبندین میں امتحانی مراکز میں اساتذہ خود ہی پیسے لیکر طلبا کے لئے باہر سے نقل لاتے ہیں ۔

دالبندین سے سماجی ورکر حفیظ شہی بلوچ نے لکھا ہے کہ  گذشتہ روز مین روڑ پر سےگزرتے ہوئے مرکزی ہائی اسکول کے مین گیٹ پر نوجوانوں کے رش پر نظر پڑی۔

سوچا شاید اسکول میں زیر تعلیم طلباء کے عزیزواقارب ہونگے جو ان کے پڑھائی، کلاسز میں ان کی روزانہ کارکردگی اور دیگر تعلیمی امور جاننے کےلیے ان کے اساتذہ کرام سے ملنے آئے ہونگے۔۔

لیکن قریب جاکر معلوم ہوا کہ یہ وہ نوجوان ہیں جو خود تو کبھی اسکول گئے ہی نہیں لیکن میڑک کا امتحان دینے والے امیدواروں کو نقل کی پرچیاں فراہم کرتے ہیں ۔

نہ شرم، نہ لحاظ، بلا خوف اور دیدہ دلیری سے پرچیاں ہاتھ میں لیے کمرہ امتحان تک پہنچانے کی ریس میں لگے ہوئے تھے۔

حفیظ شہی بلوچ مزید لکھتے ہیں کہ مجھےوہ دن بھی یاد ہیں جب ہم اسی امتحانی ہال میں میڑک کے امتحان دے رہے تھے اور امتحان ہال میں نگرانی کےلیے تعینات کیے گئے ایک ٹیچر پیشاب کے بہانے ہمیشہ کمرہ امتحان سے باہر نکلتا اور نہایت راز داری سے پرچیاں اپنے واسکٹ کے خفیہ جیبوں میں بھر کر پچاس پچاس روپے کے عوض مخصوص امیدواروں تک پہنچا دیتا۔

اور آج اسی ٹیچر کو نقل دینے کے مکرو دھندے میں دوبارہ دیکھ کر حیرت کی انتہا ہوئی۔ اور اس بار مین گیٹ سے باہر عین روڑ پر انتہائی نفیس، خندہ پیشانی اور پرجوش انداز میں پرچیاں لےکر سرعام خوشی کے ساتھ واسکٹ کے بیرونی جیبوں میں بھر رہا تھا۔ یہ تو بھلا ہو اسکول انتظامیہ کا جہنوں نے اسکول احاطے میں ایک حد تک غیر متعلقہ افراد کا داخلہ بند کردیا یے۔ ورنہ یہ اصل امیدواروں کی جگہ ان کے رشتہ داروں کو چائے بسکٹ اور تمام سہولیات کے ساتھ ہال میں بٹھا دیتے۔
سماجی ورکر حفیظ شہی بلوچ مزید کہتے ہیں کہ سمجھ نہیں آرہا کہ بورڑ کی جانب سے امتحانات کے لیے تعینات کیے گئے اعلی آفیسرز دوران پیپر بھنگ پی کر سو جاتے ہیں یا نقل جیسے ناسور کی حوصلہ افزائی اور سہولت کاری کے عوض ملنے والی رقم، دعوت، طائف وغیرہ میں برابر کے حصہ دار ہوکر نقل کی کھلی چھوٹ دیتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ کسی بھی قوم کو تباہ کرنے کےلیے ایٹم بم یا لانگ رینج میزائل کی ضرورت نہیں اگر ملک میں تعلیم کا معیار گرا دیا جائے اور امتحانات میں طلباء کو نقل کی آزادی دی جائے تو وہ قوم خود بخود تباہ ہوجائے گی۔
اور اگر اسی طرح نقل جیسے ناسور کو اساتذہ صاحبان خود فروغ دیتے رہے، اسکولوں میں تعلیمی معیار گراتے رہے اور معاشرے میں تعلیم یافتہ کم بلکہ نقل پاس ڈگری یافتہ اضافہ کرتے رہے۔ تو نہ صرف معاشرہ ڈگری یافتہ جاہل اور بیمار ذہنیت کے لوگوں سے بھر جائے گا بلکہ ترقی و خوشحالی کا خواب کھبی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ اور یہی نقل پاس ڈگری یافتہ اگر
ڈاکٹر بنے تو مریض ان کے ہاتھوں مر جائیں گے۔
انجینئر بنے تو عمارتیں گر جائیں گے
اکانومسٹ بنے تو معیشت تباہ ہوگی ۔
جج بنے تو انصاف کا گلہ گھونٹ دیں گے
اور اگر خدانخواستہ سیاستدان بنے تو قوم و علاقےکا ستیاناس ہی کریں گے ۔۔