بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن نے نئے سال کے پہلے مہینے میں فورسز کی کاروائیوں کے دوران بلوچستان میں ہونے والی گرفتاریوں، ماورائے عدالت قتل اور دیگر واقعات کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ فورسز کے ہاتھوں نہتے لوگوں کو اغواء کرنے کا خوفناک سلسلہ شدت کے ساتھ جاری ہے۔
اندرون بلوچستان میں ایک ایسی صورت حال پیدا ہوچکی ہے کہ فورسز کے اہلکار تمام تر ریاستی قوانین اور انسانی حقوق کے احترام سے خود کو بالاتر تصور کرتے ہیں۔ تسلسل کے ساتھ جاری کاروائیوں سے اس خدشے کو تقویت مل رہی ہے کہ کاؤنٹر انسرجنسی کے لئے خوف کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف عام لوگوں کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں بلکہ نہتے اور عام لوگ براہ راست ان پالیسیوں کا شکار ہیں۔
ترجمان نے جنوری کے مہینے کے دوران ہونے والی کاروائیوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ سال کے پہلے مہینے میں مختلف کاروائیوں کے دوران بلوچستان بھر سے 119 افراد گرفتار کرکے لاپتہ کر دیئے گئے، جن میں 41 صرف بولان کے مختلف علاقوں سے فوجی آپریشنز کے دوران گرفتار ہوئے،گرفتار ہونے والوں میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہیں۔
دوران آپریشن بڈھو مزارانی، شادی گل چھلگری، میشدر سمالانی، گل حسن سمالانی، لالو مزارانی اور گلاب خان مزارانی کو خاندان سمیت گرفتار کر کے لاپتہ کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ 51 افراد ماورائے عدالت قتل کر دیئے گئے جن میں 13 مسخ شدہ لاشیں شامل ہیں۔ اس مہینے میں اغوا ہونے والوں میں 32 افراد بازیاب ہوئے۔ بازیاب ہونے والوں میں بیشتر اسی مہینے اغوا ہوئے تھے۔
بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن نے کہا کہ لوگوں کو بغیر مقدمات کے گرفتار کرنا، لوگوں کی عزت نفس کو مجروح کرنا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنانا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں جو کہ روزانہ کی بنیاد پر فورسز کے ہاتھوں رونما ہورہے ہیں۔بلوچستان کی مجموعی صورت حال انتہائی سنگین ہے اگر ریاست کے زمہ دار اداروں نے بلوچستان میں طاقت کے بلاتفریق استعمال کی پالیسی کو فوری طور پر ختم نہ کیا تو انسانی حقوق کی ابتر صورت حال مزید گھمبیر صورت اختیار کریگی۔ ۔بی ایچ آر او نے زمہ دار اداروں سے اپیل کی کہ وہ لاپتہ افراد کی بازیابی اور ماورائے عدالت گرفتاری اور چھاپوں کے واقعات روکنے کے لئے کردار ادا کریں۔